سیاسیات- سرکاری حکام کے مطابق واٹس ایپ کے مقامی متبادل کے طور پر ایک نئی میسجنگ ایپلی کیشن سرکاری ملازمین اور بعد میں عوام کے لیے لانچ کرنے کے لیے تیار ہے۔
پچھلے برس اگست میں اُس وقت کے وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے ”Beep Pakistan“ متعارف کرایا جسے واٹس ایپ کے پاکستانی مقامی متبادل کے طور پر پیش کیا گیا۔
امین الحق نے لانچ کی تقریب میں اعلان کیا تھا کہ ”آج کا دن پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کے لیے ایک اہم دن ہے، ہم اپنے ملک کی پہلی مواصلاتی ایپلی کیشن بیپ پاکستان متعارف کروا رہے ہیں“۔
تقریباً ایک سال بعد امین الحق نے جو اِس وقت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے سربراہ ہیں میڈیا کو بتایا کہ وزارت آئی ٹی اور اس کے متعلقہ محکموں کے سرکاری اہلکار پہلے سے ہی انٹرنل کمیونیکشن کے لیے Beep Pakistan کا استعمال کر رہے ہیں۔
ایپ آڈیو، ویڈیو پیغام رسانی، کانفرنس کالز اور دستاویزات کی شیئرنگ کو سپورٹ کرتی ہے۔
انہوں نے ٹیلی فون پر کہاکہ ” آلریڈی منسٹری آف آئی ٹی اور اس کے اٹیچ ڈیپارٹمنٹس میں ٹیسٹنگ پر چل رہا ہے، 45 دنوں کے اندر [جو] سرکاری ملازم ہیں ان کے استعمال میں لے آئیں گے، اس کے [بعد] ہم دیکھیں گے کہ کیا سچوایشن ہے تو پھر جنرل پبلک کے لیے بھی لے آئیں گے“۔
امین الحق نے اصرار کیا کہ واٹس ایپ کے برعکس بیپ پاکستان کے سرور پاکستان میں موجود ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”ہم نے اس لیے بیپ لانچ کیا ہے کہ اس کا سرور ڈیٹا سینٹر پاکستان میں موجود ہے اور یہ سو فیصد سیف اینڈ سیکیور ہے، ہم نے میڈ ان پاکستان پر کام کیا جس طرح چین WeChat استعمال کرتا ہے اور امریکا WhatsApp کرتا ہے، اسی طرح منسٹری آف آئی ٹی نے میڈ ان پاکستان پر کام کیا اور بیپ کے نام سے ایپ لانچ کی ہے“۔
موجودہ وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جیو فیکٹ چیک کے تبصروں کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (NITB) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(CEO) بابر مجید بھٹی نے تصدیق کی کہ ان کے محکمے نے کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے آئی ٹی کی وزارت کے اندر ایپ کو ٹیسٹ اور اس کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
بابر مجید بھٹی نے دعویٰ کیا کہ ”this is far richer than WhatsApp، واٹس ایپ صرف ایک میسجنگ اپلیکیشن ہے، واٹس ایپ سے compete کرنا بالکل نہیں ہے، اس کا بنیادی purpose حکومت پاکستان کو ایک سیکیور اور یونیفائیڈ پلیٹ فارم دینا ہے“۔
تاہم این آئی ٹی بی کے سی ای او نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ ایپ کس پاکستانی کمپنی نے بنائی تھی اور اس کی لاگت کتنی تھی، انہوں نےٹیلی فون پر کہا کہ ”کس کمپنی نے کیا اور cost کتنی [ہے] یہ کانفیڈنشیل ہے یہ میں آپ کو نہیں بتاؤں گا“۔
بابر مجید بھٹی نے کہا کہBeep Pakistan کو ”بتدریج “ شروع کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ” لانگر ٹرم وژن ہے کہ اوپن فار سٹیزنز ہوگا، فیز اپروچ ہے، ابھی تو میں نے گورنمنٹ کے لیے لانچ نہیں کی تو سٹیزنز کی باری بہت بعد میں آئے گی، but ,yes that is in the plan میری طرف سے اگر گورنمنٹ راضی ہوتی ہے، اگر وزارتیں اور ڈیپارٹمنٹس agree کرتےہیں تو میں آج ہی اگلے 15 منٹ میں لانچ کرنے کےلیے تیار ہوں“۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا بیپ پاکستان میں عوام کے لیے کھول دیے جانے کے بعد واٹس ایپ پر پابندی عائد کر دی جائے گی، بابر مجید بھٹی نے کہا کہ واٹس ایپ کو بند کرنے کا فیصلہ ان کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔
جبکہ امین الحق نے کہا کہ وہ کسی بھی سوشل میڈیا ایپلی کیشنز پر پابندی کے حق میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا ”کیونکہ سیف اور سیکیور ہے تو ہماری خواہش ہوگی کہ پاکستان میں بیپ چلے اور جو واٹس ایپ چلانا چاہیں بے شک استعمال کریں“۔
لیکن واٹس ایپ کے متبادل کی خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستانی صارفین پہلے ہی واٹس ایپ کے ساتھ خاص طور پر میڈیا فائلز بھیجنے اور وصول کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
ڈیجیٹل حقوق کے کارکنوں کو شبہ ہے کہ یہ رکاوٹ ملک میں آزادانہ سوچ اور اختلاف رائے کو روکنے کے لیے آن لائن فائر وال کی جانچ اور انسٹالیشن کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔
دریں اثنا ایک صحافی اور ڈیجیٹل حقوق کی کارکن رمشا جہانگیر نے حکومت کی طرف سے تیار کردہ مواصلاتی ایپلیکیشن شروع کرنے کے طریقہ کار کو ”کم نظری“ قرار دیا۔
رمشا جہانگیر نے میسجر کے ذریعے بتایا کہ ”سب سے پہلے ہمارے پاس مناسب ڈیٹا تحفظ اور رازداری کے safeguards موجود نہیں ہیں، وہ [حکام] صرف سرکاری اہلکاروں اور عوام کو مزید حفاظتی خطرات سے دوچار کرنے جا رہے ہیں، دوم مقامی ایپس کو چلانے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری اور تکنیکی مدد کی ضرورت ہوتی ہے، بھارت میں Koo’s کی مثال دیکھیں، فنڈز کی کمی کی وجہ سے ایپ نہیں چل سکی، افریقا میں مقامی متبادل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے“۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایپلی کیشنز ایک ایسے وقت میں شروع کی جا رہی ہیں جب حکومت پاکستان بین الاقوامی فرموں پر ڈیٹا لوکلائزیشن کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”حکام نے پاکستان میں انٹرنیٹ کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں کوئی شفافیت نہیں دکھائی، انہوں نے ایک قابل رسائی اور تیز انٹرنیٹ کے عوام کے حق کو بھی نظر انداز کرنا جاری رکھا ہے، یہ ایک اور اقدام ہے جو ڈیجیٹل پاکستان کے حصول کے لیے ملک کی کم نظری کے نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے”۔
حالیہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ پاکستانی صارفین کو واٹس ایپ کے استعمال میں خاص طور پر میڈیا فائلز بھیجنے اور وصول کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ڈیجیٹل حقوق کے کارکنوں کو شبہ ہے کہ یہ رکاوٹ ملک کی جانب سے آزادانہ تقریر اور اختلاف رائے کو روکنے کے لیے آن لائن فائر وال کی تنصیب کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔