سیاسیات- شام کی عرب لیگ میں واپسی کے حوالے سے ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس سے قبل مصر کے وزیر خارجہ سامح الشکری نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ شام کے بحران کے تمام مراحل نے ثابت کیا ہے کہ اس بحران کو فوجی آپشن کی بجائے سیاسی طور پر حل کیا جانا چاہئے۔ شامی حکومت اور وہاں کی قومی جماعتوں کو ہی بیرونی مداخلت کے بغیر کسی سیاسی حل کو ڈھونڈنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ شام میں دہشت گردی کی تمام اقسام پر قابو پانا ضروری ہے۔ مذکورہ اجلاس کے شروع ہوتے ہی عراق کی وزارت خارجہ کے ترجمان “احمد الصحاف” نے کہا کہ شام عرب لیگ میں اپنی جگہ پر واپس آئے گا۔ واضح رہے کہ عراق نے ڈپلومیٹک ڈائیلاگ پر زور دیتے ہوئے شام کی عرب لیگ میں واپسی پر گہرا کردار ادا کیا ہے۔ نیز عرب لیگ کے ترجمان جمال رشدی نے بھی اعلان کیا کہ عرب وزرائے خارجہ نے شام کی اس یونین میں بحالی کے حوالے سے فیصلہ کر لیا ہے۔
ایک سعودی خبر نگار نے رپورٹ دی کہ عرب ممالک کے وزرائے خارجہ 12 سال بعد عرب لیگ میں شام کی مشروط واپسی پر رضامند ہو گئے ہیں۔ ان رپورٹس کی بنیاد پر عرب لیگ کے آج کے اجلاس کی قرارداد کے مسودے میں لکھا گیا ہے کہ لیگ کے اجلاسوں میں شامی وفود کی شرکت اتوار (7 مئی) سے دوبارہ شروع ہو جائے گی۔ یہ مسودہ مکمل ہونے کے بعد باضابطہ طور پر جاری کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات کے میڈیا نے بھی شام کی عرب لیگ میں واپسی کے حوالے سے عرب وزرائے خارجہ کی رضامندی کی خبر دی ہے۔ یاد رہے کہ نومبر 2011ء میں شام کے بحران کے کچھ ماہ بعد قطر اور سعودی عرب کے علاوہ دیگر عرب ممالک نے اس یونین سے شام کی رکنیت معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ عرب لیگ میں شام کی رکنیت اس بے بنیاد الزام پر معطل کی گئی تھی کہ بشار حکومت اپنے لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
جس کے بعد بعض عرب ممالک نے شام میں اپنے سفارت خانے اور قونصل خانے بھی بند کر لئے تھے۔ لیکن آج اس بحران کے تقریباََ بارہ سال بعد اپنے منصوبوں میں ناکامی اور شام پر بشار الاسد کی حکومت کے قدرت مند ہونے کے بعد، عرب لیگ کے وزرائے خارجہ نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شام کی اس یونین میں واپسی کا فیصلہ کیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ دمشق کے بعض حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس یونین میں واپسی کے لئے کوئی درخواست نہیں دی بلکہ یہ اقدام خود عرب ممالک کی جانب سے اُٹھایا گیا ہے۔