سیاسیات- قم المقدسہ میں ادارہ سیاسیات، الاسوہ مرکز تعلیم و تربیت اور الھدیٰ فاؤنڈیشن کی جانب سے منعقدہ القدس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سید مہدی حسن کا کہنا تھا کہ اس وقت یوم القدس کو پاکستان، ایران، عراق یا دیگر چند مسلم ممالک تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہیئے بلکہ اس دن کو ہمیں مل کر عالمی رخ دینے کی ضرورت ہے۔ (فلسطین دنیا کا اولین مسئلہ ہے) اور رہبر کبیر کا بھی یہی حکم ہے کہ یوم القدس کو دنیا کے گوشے گوشے میں منایا جائے۔ ہر باشعور، باور اور ہمدرد لوگوں کو چاہیئے کے دنیا استکبار کے خلاف اس دن کو عالمی یوم القدس کے نام سے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جائے، تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اگست 1979ء میں ماہ مبارک رمضان میں اہم پیغام دیا تھا کہ میں عرصہ دراز سے غاصب اسرائیل کے خطرے سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا آرہا ہوں، میں تمام مسلمان عالم اسلام اور اسلامی حکومتوں سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ اس غاصب حکومت اور اس کے حامیوں کا اس کرہ ارض سے خاتمہ کرنے کے لئے سب متحد ہو جائیں(روز جھانی قدس امت اسلامی کا ظلم اور صھونیست کی بی عدالتی اور انکے حامیوں کے ساتھ اعلان مخالفت کا دن ہے)۔
دراصل امام خمینی علیہ رحمہ کی طرف سے یہ یوم القدس کا اعلان اور تمام اسلامی ممالک کی جانب سے اس کو اہمیت دیئے جانے کے سبب یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں بلکہ امت مسلمہ کی غیرت کا مسئلہ ہے۔ اسی لیے امام خمینی نے سیاسی بصیرت کے ذریعے عالمی یوم القدس کا اعلان کیا، تاکہ مسئلہ فلسطین پر تمام مسلمان متحد رہیں۔ ایک ایسا دن جو مسلمانوں کے اتحاد کے مستحکم ہونے کا سبب بنتا ہے۔ آج جو قومیں فلسطین کے مسئلہ کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں، یہ بیدار قومیں ہیں اور انہوں نے حقیقت کو سمجھا ہوا ہے۔ روز قدس عالم اسلام کے اتحاد اور ہم آہنگی کے ان حقیقی مظاہروں میں سے ایک ہے۔ روز قدس کے دن مسلمان قومیں اپنے مستقبل کی فکر کرتیں ہیں اور اپنی ہمت اور قوت کو جمع کرتیں ہیں، جس سے ایک حرکت وجود میں آتی ہے اور اس حرکت سے مستقبل کے لیے راستوں کو کھولتی ہیں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حجت الاسلام والمسلمین مولانا ڈاکٹر امجد علی خان کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے، جو مسلسل پچھتر سال سے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کر رہی ہے۔ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرنا ہر مسلمان پر عقلی، شرعی اور اخلاقی طور پر واجب ہے۔ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا “من سمع رجلا ینادی یاللمسلمین فلم یجبہ فلیس بمسلم” اور دوسرے مقام پر حضور (ص) نے فرمایا “میں اخذ للمظلوم من الظالم کان معی فی الجنہ مصاحبا” اور اسی طرح مولا امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ امت سعادت مند نہیں ہوسکتی، جو کمزور کا حق طاقتور سے نہ لے کر دے۔ لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ یوم القدس کی ریلیوں میں شرکت کرکے مظلوم کی حمایت کرے اور ظالم سے نفرت کا اظہار کرے اور مسلمان حکومتوں سے اپیل ہے سب ملکر فلسطین کی آزادی کے لیے عملی اقدام کریں، تاکہ قبلہ اول غاصب صہیونی دہشتگردوں سے آزاد ہو اور فلسطین کے مسلمان آزادی کا سانس لے سکیں۔
حجت الاسلام والمسلمین مولانا شاکر علی کا کہنا تھا کہ ایک ذمہ داری جو تمام اقوام عالم نے انجام دینی ہے، وہ فلسطین کی ہر میدان میں حمایت ہے۔ کچھ عرب حکومتیں جو ابتداء میں اسرائیل کی غاصبانہ ریاست کے مخالف تھیں، وہ اپنی حمایت کرنے میں پیچھے ہٹ گئی ہیں اور بظاہر کچھ پڑھے لکھے بھی جس وجہ سے بھی ہو، اسرائیل کی حمایت میں بولتے ہیں، لیکن اسکے باوجود صاحبان مقاومت آج بھی پرامید ہو کر اپنی راہ پر گامزن ہیں۔ رہبر معظم انقلاب نے فرمایا تھا کہ اگلے 25 سال میں اسرائیل کا وجود باقی نہیں رہے گا اور سید حسن نصراللہ نے فرمایا ہم نے رہبر معظم کے اس فرمان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ پس دوسرا فریضہ جو مسئلہ فلسطین کے تناظر میں ہم سب پر عائد ہوتا ہے، وہ نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ عملی اقدام اٹھانا ہے اور یہ ہر خطے کے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اس مسئلہ میں فلسطین کی آزادی کے خواہان لیڈروں کی سوچ کے مطابق عملی قدم اٹھائیں۔ ہمارے ملک پاکستان کے بانی محمد علی جناح کا موقف بھی فلسطین کی حمایت اور غاصب اسرائیل کے حوالے سے واضح رہا ہے۔اب یہ پاکستانی عوام اور حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ فلسطیں کے حق میں عملی اقدامات کو سرعت دے کر عالمی مقاومت کا حصہ بنیں۔
الھدیٰ ویلفیئر فاؤنڈیشن کے سربراہ محمد شاہد رضا خان نے القدس کانفرنس کا آغاز بابائے قوم محمد علی جناح (رہ) کے فرمان سے کیا۔ اسرائیل امت مسلمہ کے دل میں گھونپا گیا خنجر ہے، یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ مزید کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ قدس کو واپس لیں اور نماز وہاں پڑھیں تو جس رہبرِ و راہنماء کے ایام شہادت ہیں، اس امام کی سیرت کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ وہ امام جس کی ساری زندگی عدل الہیٰ میں گزری، وہ امام جس کی ساری زندگی غریبوں، یتیموں، مسکینوں اور ناتوان انسانوں کی خدمت میں گزری، وہ امام جس کی ساری زندگی مظلوم کی حمایت، ظالم کی مخالفت اور دشمنی میں گزری، اس امام کی اطاعت کرنا پڑے گی۔ آج اگر دنیا کے مسلمان اسرائیل کے ناجائز قبضہ سے قدس کو آزاد کروانا چاہتے ہیں تو حضرت علی کرم اللہ وجہ کی سیرت پر عمل کرنا پڑے گا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کی طرح غریبوں، یتیموں، مسکینوں اور ناتوان انسانوں اور مسلمانوں کی خدمت کرنا پڑے گی۔
الھدیٰ ویلفیئر فاؤنڈیشن کے سربراہ نے مزید کہا اسرائیل اور امریکہ مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانے میں بڑی مہارت رکھتا ہے، اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی اقتصاد مضبوط ہے، مسلمانوں کا دشمن جہاں چاہتا ہے، مسلمانوں کے خلاف سازش کرتا ہے اور مسلمانوں کو گروہ در گروہ تقسیم کر دیتا ہے۔ اگر دنیا کے مسلمان اسرائیل اور امریکہ کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں کو وحدت کی فضاء قائم کرنا پڑے گی، مسلمانوں کو اپنی اقتصاد مضبوط کرنا پڑے گی۔ انہوں نے مزید کہا دشمن جو ہمیں تقسیم کرنے میں لگا ہے، کبھی وہ شیعہ کو سنی اور کبھی سنی کو شیعہ سے لڑوا رہا ہے، ہمیں دشمن کی سازشوں کو سمجھنا ہوگا۔ ہمارا خدا ایک ہے، ہمارا پیغمبر ایک ہے، ہمارا قرآن ایک ہے تو پھر اختلاف کیوں۔؟ جزئیات کا اختلاف ہے، جزئیات کو اختلاف بنا کر ہمیں آپس میں لڑوایا گیا، یہ دشمن کی سازشیں تھیں، ہمیں دشمن کی سازشوں کو سمجھنا ہوگا، ہمیں ایک ہونا پڑے گا۔
ہم شیعہ اور سنی آپس میں بھائی ہیں، ہم سب مسلمان ہیں اور ہم ایک ہیں، ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے آور ہم سب قدس کے ماننے والے ہیں۔ ہم سب کعبہ کے ماننے والے ہیں، ہمیں شیعہ اور سنی میں تقسیم نہ کیا جائے۔ ہمیں ایک ہونا پڑے گا، جیسے رہبر کبیر امام خمینی (رہ) نے فرمایا تھا کہ اگر مسلمان ایک ہو جائیں اور ایک ایک بالٹی پانی کی بھر کر اسرائیل پر ڈال دیں تو اسرائیل سیلاب کی طرح بہہ جائے گا۔ الھدیٰ ویلفیئر فاؤنڈیشن کے سربراہ نے مزید کہا ہم سب مسلمانوں کو اسرائیل، امریکہ کے اور باطل قوتوں کے خاتمے اور قدس کی آزادی کیلئے عملی طور پر ایک ہونا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے بابا قوم محمد علی جناح (رہ) کا واضح موقف تھا کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ آج الحمدللہ پاکستان آرمی دنیا کی بہترین فوج ہے اور پاکستان کے ادارے دنیا کے بہترین ادارے ہیں، جن کا واضح موقف ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور پاکستان آرمی کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ الھدیٰ فاؤنڈیشن کے سربراہ نے مزید کہا کہ اگر دشمن کا مقابلہ کرنا ہے، اگر قدس کو واپس لینا ہے، اگر قدس میں افطار اور نماز بڑھنی ہے تو مسلمانوں کو ہر میدان میں آگے بڑھنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہونگے۔
کانفرنس سے خطاب میں مولانا فیصل رضا عسکری کا کہنا تھا کہ القدس درحقیقت مستکبرین و استعماری قوتوں کو پیغام دیتا ہے کہ تمہارے ظلم کے نیچے کبھی بھی ہم دبنے والے نہیں ہیں۔ جمعہ کا دن سید الایام ہے۔ اسی طرح تمام مہینوں کا سردار مہینہ، ماہ رمضان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جس نے ایک مرتبہ پھر گناہوں کی بخشش کے لیے اس ماہ مبارک میں سانس لینا نصیب فرمایا۔ اس ماہ مبارک و برکت میں پورے جہاں میں مسلمانان خصوصی اہتمام سے مناتے ہیں، یہ وہ مہینہ جس میں (حدیث کی روشنی) قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت کا ثواب پورے قرآن مجید کی تلاوت کے برابر ثواب ہے۔ اس ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو جمعۃ الوداع کہا جاتا ہے، جس کی مسلمانوں کے نزدیک بہت اہمیت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان سیر و سلوک کی منازل میں اوج پر ہوتا ہے اور یہ جمعہ انسان کو متوجہ کر رہا ہوتا ہے کہ اس ماہ مبارک کے کچھ روز باقی ہیں، لہذا معنویات کو جتنا سمیٹ سکتا ہے سمیٹ لے۔
اس دن کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے امام خمینی علیہ رحمہ نے جمعۃ الوداع کو یوم القدس کا نام دیا، تاکہ جہاں وہ سربسجود ہے، خدا کی برکتیں و رحمتوں کے حصول کے لیے وہیں پر پوری امت مسلمہ یکجا ہو کر پوری دنیا کے مظلومین اور بالخصوص فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے۔ امام خمینی علیہ رحمہ نے فرمایا تھا: “یوم القدس ھو یوم الاسلام، یوم القدس ھو یوم العالم” یوم القدس روز جہانی ہے، ایسا نہیں ہے کہ صرف قدس کے ساتھ اختصاص رکھتا ہو بلکہ مستضعفین کا مستکبرین کے ساتھ مقابلے کا دن ہے۔ اسرائیل بشریت و اسلام دونوں کا دشمن ہے۔ یوم القدس اسلام کی دوبارہ زندگی کا نام ہے۔ آج اگر پاکستان کے اندر مسلمان متحد ہو جائیں تو دشمن نہ قدس کی طرف دیکھ سکتا اور نہ پاکستان کی طرف۔ یوم القدس درحقیقت مستکبرین و استعماری قوتوں کو پیغام دیتا ہے کہ تمہارے ظلم کے نیچے کبھی بھی ہم دبنے والے نہیں ہیں۔
تین ایسے عوامل ہیں کہ جن کی وجہ سے فلسطین کا مسئلہ پوری دنیا میں مہم ترین مسئلہ بن گیا ہے۔
1۔ ماہیت سرزمین فلسطین یعنی اس سرزمین کا تقدس اور مقام، دین اسلام کے پیروان کے نزدیک بہت اہمیت کا حامل ہے۔
2۔ اس سرزمین کا مذہبی، تاریخی اور روحی مقام کا ہونا۔
3۔ ماہیت ائتلاف غربی یعنی صہیونیوں کا ہمیشہ امت واحدہ کے اندر تفرقہ اور اسلام کو کمزور کرنے کی سازش کرتے رہنا۔
اقوام متحدہ میں اب تک 700 قرار دادیں پاس ہوئیں، مگر امریکہ شیطان بزرگ نے 270 قراردادوں کو ویٹو کرکے اسرائیل کے ناجائز وجود کو بچایا اور دوسری قراردادوں کو اسرائیل نے نابود کر دیا۔
اسرائیل کو ماضی میں بالخصوص 2000ء عیسوی میں لبنان سے پاسپائی ہوئی۔ 2004ء عیسوی میں دو اسرائیلی فوجیوں کے بدلے میں چند حزب اللہ اور حماس کے سینکڑوں رہنماؤں کی رہائی، 2006ء عیسوی میں حزب اللہ کے ساتھ لبنان میں 33 روزہ جنگ میں شکست، 2008ء عیسوی غزہ میں حماس کے ساتھ ہونے والے معرکہ میں شکست، اسی طرح 2012ء عیسوی و 2014ء عیسوی میں غزہ اور فلسطین میں حماس کے مجاہدین کے ہاتھوں بدترین شکست کھانے کے بعد اسرائیل نے خطے میں بدامنی پھیلانے کے لیے نت نئی دہشت گرد تنظیموں کو جنم دیا اور انہیں فعال رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پس یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسرائیل پوری انسانیت کا کھلا دشمن ہے۔
مولانا سید زین القائم عابدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی نے فرمایا کہ
یوم القدس ایران کا نہیں بلکہ عالم اسلام کا دن ہے۔ قدس کی آزادی اور مظلومین فلسطین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے میری پوری امت مسلمہ خصوصاً جوانان سے گزارش ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم مثل Twitter، Facebook ،Instagram پر بھرپور ٹرینڈ چلائیں اور اسرائیل کے کالے کارناموں کو دنیا کے سامنے لائیں۔ میں آج کی اس عظیم الشان کانفرنس کے توسط سے اپنے فلسطینی بھائیوں بہنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہوں اور اسرائیل کے تمام تر مظالم کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کالم نگار سید دانیال علی نے کہا کہ یوم القدس یوم “اليس الصبح بقريب” ہے، جو ہمیں فتح کی نوید سناتا ہے. یوم القدس “واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا” کا مصداق ہے کہ جس میں تمام عالم اسلام اتحاد بین المسلمین کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یوم القدس یوم مستضعفین جہان ہے۔ مشرق وسطی کی تبدیل ہوتی صورتحال صیہونی پنجوں سے بیت المقدس کی آزادی کا اشارہ دے رہی ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سید عدیل عباس نقوی نے کہا کہ جس طرح کربلا کے ماننے والے، کربلا میں موجود ہر ایک کردار کی ذمہ داری سے آگاہ ہیں، اسی طرح القدس کے حوالے سے بھی ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا ادراک ہے، کیونکہ صحیفہ حسین کا قاری کبھی بھی مظلوم کا مخالف اور ظالم کا حامی نہیں ہوسکتا۔
الاسوہ مرکز تعلیم و تربیت کے سربراہ علامہ میثم طہ کا کہنا تھا کہ قدس کے لیے درست دشمن شناسی اور جہاد تبیین کی ضرورت ہے۔ قدس مسلمانوں کا سابق “قبلہ” اور مسلمانوں کا موجودہ “قلب” ہے۔ پوری تاریخ میں ہم قدس کے ساتھ رہے ہیں اور قدس کی حرمت کے محافظ رہے ہیں۔ قدس محبت کا جغرافیہ، قربانی کی تاریخ اور خونی دعاؤں کی قربان گاہ ہے۔ “فلسطین کے مظلوموں کے دفاع کی ضرورت اور آج کی دنیا میں قدس کا مسئلہ کیا؟ اور کیوں ہے؟” اس بات کو معاشرے کے نوجوانوں کے سامنے واضح طور پر بیان کیا جائے اور جہاد تبیین کیا جائے، جیسا کہ قطر فٹبال ورلڈ کپ میں کوشش کی گئی۔ مسئلہ فلسطین نہ صرف مسلمانوں کا بلکہ دنیا کے تمام مظلوموں کا مسئلہ ہے اور جہاد تبیین میں تمام سعی و کوشش کی جائے کہ ظالم و مظلوم کی جگہ جابجا نہ ہونے دی جائے، مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بنا کر پیش نہ کیا جائے۔ حقائق کماحقہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی شدید ضرورت ہے اور جب مظلوم کو پہنچان چکے ہیں، فلسطین کے مظلومیت آشکار ہوچکی ہے تو ظالم کو پہنچانیں اور خود ظالم نہ بنیں اور ظالم کا ساتھ نہ دیں۔
1979ء کے ماہ رمضان میں جب انقلاب ایران کے روشن آفتاب امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک پروقار پیغام میں ہر سال ماہ رمضان کے جمعۃ الوداع کو مقدس دن قرار دیا اور کہا کہ یہ اسلام کی زندگی کا دن ہے۔ یوم قدس مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان عالمی یکجہتی اور وحدت کا دن ہے کہ صیہونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت اور دشمن کے بارے میں عوام کی بصیرت کو اجاگر کیا جائے۔ القدس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ظہور عباس کمیلی کا کہنا تھا کہ امام کبیر امام خمینی (رہ) نے اپنے خطبہ میں جمعۃ الوداع کو یوم القدس قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دن وحدت اجتماعی کی علامت ہے، یوم القدس کو فلسطینی مسلمانوں کی آزادی کے طور پر منائیں اور فلسطین کی آزادی کا پختہ عزم کر لیں۔ فلسطین مشرق وسطیٰ کی آنکھ ہے، جہاں پر مسلمان 1917ء تک آبرومندانہ زندگی گزار رہے تھے۔ برطانیہ نے 1917ء میں فلسطین پر حملہ کرکے اس کی زمین پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ یہودیوں کو آباد کیا اور ان کی ہر لحاظ سے سربرستی اور مدد کی اور مسلمانوں پر ظلم ڈھائے۔ 1948ء کو جب اسرائیل وجود میں آیا، اس وقت سے لے کر آج تک امریکہ اسرائیل کی سربراہی کر رہے اور اس کے ذریعے مسلمانوں پر ظلم کروا رہا ہے اور اس ایجنڈے پر کاربند ہے کہ کوئی بھی اسلامی مملکت ترقی نہ کر پائے اور مستحکم نہ ہو۔
مولانا علی جعفر قمی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یوم القدس رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو منایا جاتا ہے، یوم القدس فلسطینیوں پر ظلم اور مسلمانوں کے قبلہ اول پر قبضہ کے خلاف اعتراض میں مظاہرے کرنے چاہیں اور اس دن اپنے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں ریلیاں نکالیں اور مظلوموں کی حمایت کریں۔ تمام مسلمانوں پر ضروری ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں آواز بلند کریں اور ظلم صہیونیوں کے خلاف مظاہرے کریں اور پوری دنیا کو بتائیں کہ ہم مظلوموں کے ساتھ ہیں اور فلسطینی معصوم بچوں، عورتوں اور جوانوں کو بےجرم و خطأ قتل کرنے پر ہم عالمی اداروں سے کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین پہ آواز بلند کریں۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ زوار حسین علوی صاحب نے سورہ مبارکہ رعد کی آیت نمبر 11 کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ آج ہم ایسے وقت میں یوم القدس منا رہے ہیں، جب مسلمانوں میں اتحاد کا فقدان ہے، سپر طاقتوں بالخصوص امریکہ سے مرعوب ہیں، “ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک، نہ تھی پسند گستاخی فرشتگان ہماری جناب میں۔” انہوں نے مزید کہا ک گذشتہ کچھ عرصے سے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کی کمپین چل رہی ہے، بہت سے ممالک اسرائیل سے تعلقات بحال کرچکے اور کئی ممالک میں اسرائیل کے سفارت خانے کھل چکے ہیں۔ علامہ زوار علوی کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت دنیا بھر میں یہودیوں کی کل تعداد 15 لاکھ ہے، لیکن پوری دنیا کی اکانومی پر انکا قبضہ ہے۔ لہذا مسلمانوں کو مسئلہ فلسطین پر اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے۔
ادارہ سیاسیات کے مدیر اعلیٰ حجة الاسلام ثقلین واحدی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غاصب اسرائیل جو کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اسے یہاں بسانے اور اس کی پشت پناہی میں سب سے اہم کردار برطانیہ نے ادا کیا، آج بھی برطانیہ اور امریکہ غاصب صہیونی ریاست کے سب سے بڑے پشت پناہ ہیں۔ مدیر اعلی ادارہ سیاسیات کا کہنا تھا کہ قبلہ اول کی آزادی میں سب سے اہم رول عرب ممالک ادا کرسکتے تھے، لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ ایران سعودی سفارتی تعلقات کی بحالی مسئلہ فلسطین اور آزادی قبلہ اول کے لئے خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے، امید کرتے ہیں کہ وہ دن اب دور نہیں، جب قبلہ اول آزاد ہوگا اور مشرق وسطی کے باسی امن و امان کی فضا میں سکھ کا سانس لے سکیں گے۔