سیاسیات- شیعہ علماء کونسل پاکستان راولپنڈی ڈویژن کی جانب سے موجودہ ملکی صورتحال اور متنازعہ فوجداری قانونی (ترمیمی) ایکٹ 2021ء کی دفعہ 298A کے حوالے سے ” ڈویژنل علماء کنونشن“ بمقام مسجد و امام بارگاہ الصادق کراچی کمپنی G-9/2 اسلام آباد میں منعقدہوا، جس میں راولپنڈی ڈویژن کے تمام اضلاع اور تحصیلوں سے علماء کرام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ ڈویژنل کنونشن میں علامہ شبیر حسن میثمی، علامہ عارف حسین واحدی، علامہ محمد افضل حیدری، علامہ حافظ سید کاظم رضا نقوی، زاہد علی آخونزادہ، علامہ شیخ مرزا علی، علامہ سید اشتیاق حسین کاظمی، علامہ سید حسین عسکری نقوی، علامہ سید جعفر نقوی، علامہ نصیر حیدر، علامہ سید طالب حسین نقوی، علامہ غلام قاسم جعفری، علامہ سید سجاد حسین ہمدانی، علامہ آفتاب حسین جوادی سمیت دیگر علماء کرام نے متنازعہ فوجداری قانونی ترمیمی بل کی سختی سے مخالفت اور اس ترمیمی بل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
علماء کرام نے اس بات کا عزم کیا کہ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کے حکم پر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، علماء کنونشن میں اس بل کی مخالفت سمیت دیگر اہم قراردادیں بھی منظور کیں۔ ڈویژنل علماء کنونشن کے اختتام پر شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ شبیر میثمی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ علماء کونسل پاکستان کی جانب سے متنازعہ فوجداری ترمیمی بل کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ متنازعہ فوجداری بل سے متعلق اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی کا کہنا تھا کہ بل کی منظوری کے وقت 342 ارکان کی اسمبلی میں صرف 20 سے 25 ارکان موجود تھے، جو اس امر کا عکاس ہے کہ قومی اسمبلی کا نہ تو کورم پورا تھا اور نہ ہی اسمبلی کی اکثریت موجود تھی بلکہ ایوان حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان کی اکثریت سے خالی تھا۔
انہوں نے کہا کہ خود اسپیکر بھی موجود نہ تھے اور ایسے عالم میں بل کی متنازعہ ترامیم کو منظور کرانا بدنیتی پر مبنی اقدام قرار دیا جا سکتا ہے۔ لہذا ہم ایوان بالا سینیٹ کے ارکان کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس متنازعہ ترامیمی بل کو مسترد کر دیں۔ انہوں نے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے بھی اپیل کی کہ وہ اس متنازعہ ترامیمی بل پر دستخط نہ کرکے وطن عزیز کو کسی بھی مزید بحران سے دوچار ہونے سے بچائیں۔ اس لئے کہ متاثرہ فریق کو سنے بغیر اس قسم کی قانون سازی کرنا بے انصافی اور حکمرانوں کی کمزوری کی دلیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی کے مقدسات کی توہین کے ہرگز قائل نہیں، لیکن یہ قانون انتہاء پسند عناصر کے ہاتھ میں ہتھیار دینے کے مترادف ہوگا۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، امن و امان، معیشت، قرضے، بے روزگاری مہنگائی کے مسائل بڑھ چکے ہیں، ایسی صورتحال میں پاکستان کو مستحکم اور بچانے کے بجائے تفرقے کی نذر کیا جا رہا ہے۔
قومی اسمبلی سے متنازعہ فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ پاس کرکے تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ ہم نے وطن عزیز کے لیے قربانیاں دیں، ہماری قیادت نے ہمیشہ اتحاد کی بات کی ہے، متنازعہ ترمیمی ایکٹ ملک میں امن و امان کی فضا کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ پہلے سے قانون موجود ہے، اس پر انصاف کے ساتھ عملدرآمد کرانا چاہیئے، ہماری بات نہ سنی گئی تو ملک گیر احتجاج کی کال بھی دے سکتے ہیں انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان سمیت دیگر علاقوں میں ہونے والی دہشتگردی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مستقل بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔