سیاسیات-غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی خبر کے مطابق فلسطینی صدر کے دورہ چین سے متعلق خبر بیجنگ کی جانب سے جاری ایک بیان میں دی گئی۔
صدر کے دورے کی خبر چین کی جانب سے اسرائیل-فلسطین امن مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کرنے کے بعد سامنے آئی ہے۔
چین نے خود کو مشرق وسطیٰ میں اپنے آپ کو ایک ثالث کے طور پر پیش کیا ہے جس نے مارچ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کی ثالثی کی جب کہ خطے میں امریکا کئی دہائیوں سے پاور بروکر رہا ہے۔
وزارت خارجہ کی ترجمان چون ینگ نے جمعے کے روز جاری بیان میں کہا کہ ریاست فلسطین کے صدر محمود عباس شی جن پنگ کی دعوت پر 13 سے 16 جون تک چین کا سرکاری دورہ کریں گے۔
وزارت کے ترجمان وانگ وین بن نے باقاعدہ بریفنگ میں بتایا کہ وہ رواں سال چین کا دورہ کرنے والے پہلے عرب سربراہ مملکت ہیں جو چین-فلسطین کے اعلیٰ سطح کے اچھے تعلقات کی مکمل عکاسی کرتا ہے جب کہ روایتی طور دونوں ممالک کے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ محمود عباس چینی عوام کے دیرینہ اور اچھے دوست ہیں، چین نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے جائز قومی حقوق کی بحالی کے لیے ان کی حمایت کی ہے۔
بیجنگ نے جہاں مشرق وسطیٰ کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے وہاں اس نے دیرینہ امریکی اثر و رسوخ کو چیلنج کیا ہے جس کی واشنگٹن کی جانب سے مذمت کی گئی ہے۔
شی جن پنگ نے گزشتہ سال دسمبر میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور وہ ایک عرب آؤٹ ریچ کے دورے پر گئے تھے جہاں انہوں نے محمود عباس سے بھی ملاقات کی تھی اور “مسئلہ فلسطین کے جلد، منصفانہ اور پائیدار حل کے لیے کام کرنے کا عہد کیا۔
اور رواں ہفتے ریاض کے دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ سعودی عرب کو واشنگٹن اور بیجنگ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور نہیں کیا جا رہا۔
انٹونی بلنکن نے بھی رواں ہفتے اسرائیل فلسطین کشیدگی میں ثالثی کی کوشش کی ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر زور دیا کہ وہ فلسطینی ریاست کے امکانات کو کمزور نہ کریں۔
ایک میڈیا رپورٹ میں کہا گیا کہ چینی وزیر خارجہ نے اپنے اسرائیلی اور فلسطینی ہم منصبوں کو بتایا کہ ان کا ملک امن مذاکرات میں مدد کے لیے تیار ہے،انہوں نے فلسطینی وزیر خارجہ کو بتایا کہ بیجنگ جلد از جلد مذاکرات کی بحالی کی حمایت کرتا ہے۔