فروری 11, 2025

غزہ پر حملہ صیہونیوں کے وحشیانہ انتقام کو ظاہر کرتا ہے، سید حسن نصر الله

سیاسیات-لبنان کی مقاومتی تحریک “حزب الله” کے سیکرٹری جنرل “سید حسن نصر الله” نے “یوم شہداء” کی مناسبت سے اپنے خطاب کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ موقع ایک بڑے آپریشن کے آغاز کی یاد دلاتا ہے کہ جس میں صیہونی فوج کے 100 سے زائد فوجی اور افسر ہلاک ہوئے تھے اور اسرائیل میں تین روز کے سوگ کا اعلان کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ شہداء کا راستہ ہمارا راستہ ہے۔ شہادت کامیابی لاتی ہے۔ امام خمینی رہ نے فرمایا تھا کہ کربلا میں شمشیر پر خون کی فتح ہوئی تھی۔ آج ہمارے خطے اور عوام پر وہی امریکی شمشیر لٹک رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہداء کا خون دشمن کی شکست کا باعث ہے۔ ہمارے شہداء بابصیرت تھے، وہ دوست و دشمن کی پہچان رکھتے تھے، وہ صحیح اور غلط کی شناخت رکھتے تھے، انہیں پتہ تھا کہ کس وقت کیا کام کرنا ہے، وہ ذمے دار افراد تھے، وہ اہل عمل، جہاد و صبر تھے۔ حزب الله کے سیکرٹری جنرل نے اپنی گفتگو بڑھاتے ہوئے فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی جارحیت کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی رژیم، غزہ پر علی الاعلان، واضح اور مکروہ حملہ کرتی ہے۔ غزہ پر صیہونی درندگی رُکنے کا نام نہیں لے رہی بلکہ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔

امینِ لبنان نے کہا کہ اسرائیل کے یہ حملے اس کی انتقامی جبلت کو ظاہر کرتے ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ اسرائیل کے اِن وحشیانہ اور دہشت گردانہ حملوں کا ہدف صرف فلسطینیوں سے انتقام لینا ہی نہیں بلکہ اُن کا اصلی ہدف غزہ، فلسطین، لبنان اور تمام خطے کو اپنے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ اُن کا ہدف لوگوں کے قانونی حقوق کی پامالی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ مزاحمت کے آپشن اور مرکز سے نا اُمید ہو جائیں۔ تا کہ ہر جگہ تسلیم ہونے کی ثقافت رواج پا جائے۔ اس کے بعد صیہونی پرپیگینڈہ کریں کہ مقاومت کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے پس اس سے ہاتھ اُٹھا لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی حکومت فلسطینیوں کا قتلِ عام کر رہی ہے تا کہ لبنانیوں کو باور کروائے کہ تمہارا حشر بھی ایسا ہی ہو گا۔ اسرائیلی، جہاد اسلامی اور حماس کے درجنوں ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ صیہونیوں نے صرف فلسطینیوں کی رہائشی عمارات کو ہی نشانہ بنایا تا کہ وہ اوپر بیان کئے گئے اپنے ہدف تک پہنچیں لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ اسرائیل نے گزشتہ 75 سالوں میں فلسطینیوں کے قتل و غارت گری، انہیں بے گھر کرنے اور اُن کی املاک خراب کرنے سے سبق نہیں سیکھا۔

سید حسن نصر الله نے سوال پوچھا کہ مذکورہ بالا اقدامات کا کیا نتیجہ نکلا؟۔ کیا فلسطینیوں نے مقاومت کا راستہ ترک کر دیا؟۔ نہیں بلکہ یہ مقاومت، ارادہ اور ثقافت فلسطینیوں میں نسل در نسل پھیل گئی۔ جو اس سال اپنی بالائی سطح پر تھا اور آخر کار طوفان الاقصیٰ کی صورت رونماء ہوا۔ اسی طرح لبنان کے لوگوں نے بھی اسرائیلی قتل و غارت گری کے باوجود مقاومت کا راستہ نہیں چھوڑا۔ انہوں نے کہا کہ اس بار بھی صیہونی دشمن پہلے کی طرح غلط اندازہ لگا بیٹھا ہے۔ لبنان کی عوام مقاومت سے پہلے کی نسبت زیادہ جُڑ چکی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ بعض عربی و غربی رائٹرز اور میڈیا جانے انجانے میں مایوسی پھیلا کر صیہونی اہداف کی تکمیل کرتے ہیں۔ ہمیں نہیں بلکہ اسرائیل کو نا اُمید ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل جان لے کہ غزہ اور لبنان میں شہداء کے پیکر، مقاومت کو وہ نسل فراہم کرتے ہیں جو آئندہ زمانے میں زیادہ محکم ارادے سے قابض رژیم کے ساتھ نبرد آزما ہوں گے۔ غزہ پر حملہ کر کے صیہونی رژیم نے اپنی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ان مشکلات میں سے ایک، دنیا کو اپنی وحشیانہ عادات و اطوار سے آگاہ کروانا ہے۔

سید حسن نصر الله نے کہا کہ صیہونیوں نے گزشتہ سالوں میں میڈیا کے ذریعے دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ وہ بہت تہذیب یافتہ اور پُر امن لوگ ہیں۔ لیکن صیہونیوں کی یہ تصویر دنیا کے سامنے سے مِٹ گئی۔ ہماری اقوام، صیہونیوں کے اس حملے کے بعد زیادہ شدت کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ روابط کی بحالی کے معاہدوں کو مسترد کریں گی۔ انہوں نے مختلف اسلامی ممالک میں غزہ کی حمایت میں ہونے والے اجتماعات کو بہت مہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس بھی زیادہ مہم واشنگٹن، لندن، پیرس اور دیگر مغربی ممالک میں ہونے والے مظاہرے ہیں۔ کیونکہ اس سے مغربی حکومتوں پر دباو بڑھتا ہے۔ اب امریکہ اور اس کے حواریوں کے سوا کوئی دوسرا مُلک، غزہ پر حملوں کی حمایت نہیں کر رہا۔ ابھی بھی امریکہ اس معاملے میں عجیب پالیسی کا شکار ہے۔ انہوں نے سعودی عرب میں ہونے والے عربی و اسلامی اجلاس پر تبصرے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کی نظریں اس اجلاس پر لگی ہوئی ہیں۔ فلسطینی عوام اس اجلاس میں شریک ممالک سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کے لئے اپنی فوجیں بھیجنے کا مطالبہ نہیں کر رہی۔

بلکہ وہ ان عرب ممالک سے چاہتے ہیں کہ وہ امریکہ کے سامنے یک زبان ہو کر کھڑے ہو جائیں اور فلسطینی عوام کے حقوق کے حصول اور اس جارحیت کے خاتمے کے لئے آواز اُٹھائیں۔ کیا 57 اسلامی ممالک غزہ میں انسانی امداد بھیجنے کے لئے بارڈرز نہیں کُھلوا سکتے؟۔ سید حسن ںصر الله نے غزہ میں فلسطینی مقاومت کی کارروائیوں کو سراہا۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ یہ مجاہدین انتہائی سخت حالات میں اسرائیل کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس وقت اسرائیل کی مضبوط ترین رینجر فورسز فلسطین میں موجود ہیں جو کہ اس رژیم کی کمزوری کی علامت ہے۔ غزہ کا میدان اس وقت تاریخ ساز ہے۔ مغربی کنارے کی صورت حال نے صیہونی دشمن کو مجبور کیا ہے کہ وہ حریت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی فوجیں شمال اور جنوب سے نکالے۔ انہوں نے یمن کے استقامتی محاذ کی جانب سے اسرائیل پر میزائل داغنے اور ڈرون حملہ کرنے کے شجاعانہ اقدام کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ ان حملوں نے مقاومت فلسطین کے عزم کو بلند کیا ہے۔ یمن کی جانب سے بڑھتے خطرات نے صیہونی دشمن کو مجبور کیا ہے کہ وہ شمالی اور جنوبی فلسطین سے اپنے ڈیفنس سسٹم کو “ایلات” کی جانب منتقل کرے۔

سیدِ مقاومت نے کہا کہ یمن کی دھمکیوں سے ایلات میں صیہونیوں کے لئے کہیں جائے امان نہیں اور اس مسئلے کی وجہ سے بہت سے صیہونی اس علاقے سے کوچ کرنے کا سوچ رہے ہیں جس سے صیہونی کابینہ کافی دباو میں ہے۔ فلسطین کی حمایت میں یمن کا وجود بہت بے مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ عراق و شام میں امریکی اڈوں پر حملے غزہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار ہیں۔ عراق و شام کی مقاومتی فورسز اپنے اپنے ممالک سے امریکی اڈوں کے خاتمے کی کوششوں میں ہیں۔ تاہم بد قسمتی سے بعض فلسطینی حکام کہتے ہیں کہ ان کارروائیوں سے فلسطین کا کوئی لینا دینا نہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ طوفان الاقصیٰ سے قبل مذکورہ ممالک میں امریکہ کے خلاف کوئی خاص کارروائیاں انجام نہیں دی جا رہیں تھیں۔ استقامتی محاذ برملا کہتا ہے کہ اگر امریکی اڈوں کو حملوں سے بچانا ہے تو غزہ پر حملے روک دو۔ انہوں نے امریکیوں کے اس اعترافی بیان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان مقاومتی حملوں میں 50 سے زائد امریکی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ امریکیوں نے ہم پر اور ہمارے یمنی و عراقی بھائیوں پر دباو ڈالا بلکہ کوئی بھی ایسا مغری، عربی اور لبنانی ذریعہ نہیں تھا کہ جس کے ذریعے سے امریکہ نے ہم پر دباو نہ ڈالا ہو۔

سید حسن نصر الله نے کہا کہ اس کے باوجود ہمارے عراقی و یمنی بھائیوں نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ اگر امریکہ چاہتا ہے کہ عراق و شام میں اُس کے خلاف کارروائیاں نہ ہوں، خطے میں جنگ بھی نہ پھیلے تو پھر غزہ پر حملے بند کر دے۔ انہوں نے کہا کہ مقاومتِ فلسطین کی حمایت کے حوالے سے ایران کی سیاسی، عسکری و مالی مدد کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایران، مقاومت کی مدد اور حمایت کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل نہیں کرے گا۔ بلکہ ہمیشہ مقاومت کا پشت و پناہ رہے گا۔ انہوں نے غزہ کی حمایت کے سلسلے میں لبنان کے مقاومتی کردار کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ لبنانی محاذ نے اپنی کارروائیوں کا آغاز 8 اکتوبر سے کیا۔ تمام رکاوٹوں کے باوجود ہماری سرگرمیاں جاری ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہماری عسکری کارروائی میں تیزی آئی ہے۔ ہم نے مقاومتی تاریخ میں پہلی بار خود کش ڈرون کا استعمال کیا۔ ہم نے “برکان” میزائل کا استعمال کیا۔ اس میزائل کا وزن 300 سے 500 کل گرام تک ہے۔ آپ صیہونی عسکری اڈوں پر 500 کلو بارود پھینکنے کا تصور کریں۔ پہلی بار ایک جوابی کارروائی میں “عیناتا” پر کیٹوشا راکٹ برسائے۔ اسرائیل کے قلب میں حملوں میں بہت پیش رفت ہوئی ہے۔

“الجلیل” کے علاقے میں 350 سے زیادہ زخمی صیہونی فوجی و آبادکار ہسپتال میں داخل ہیں۔ جن کی حالت خطرے میں ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل نے لبنان کے نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا جس کا ہم نے فوری جواب دیا۔ ہم نے کئی مرتبہ صیہونیوں سے کہا تھا کہ ہمارے شہریوں کو نشانہ نہ بنائے، ہم آج بھی صیہونی دشمن سے کہتے ہیں کہ ہمارے جاسوس ڈرونز مقبوضہ فلسطین کے شمال تک آتے ہیں جب کہ بعض کی پہنچ “حیفاء”، “عکاء” اور “صفد” تک ہے۔ غزہ کی جنگ میں کارزارِ نبرد فیصلہ کرے گا۔ آج کل لبنانی مقاومت کی کارروائیوں کی وجہ سے بیروت کے خلاف صیہونی خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ لبنان کی عوام اور سیاست دانوں کا موقف فلسطین کی حمایت ہے۔ یہی موقف لبنانی محاذ کُھلنے کا باعث بنا۔ ہماری پالیسی میدان جنگ میں واضح ہو گی۔ پہلے ہم کارروائی کریں گے اور پھر بعد میں اس کی وضاحت کریں گے۔ لہٰذا سب کی نظریں میدان جنگ پر رہیں۔ ہم ایسے افق کو دیکھ رہے ہیں جس میں فلسطین کی فتح ہے اور دشمن اپنے کسی بھی مقصد میں کامیاب نہیں ہو گا۔ ان شاء الله فتح ہماری ہوگی اور سب لوگ قدس کی آزادی سمیت مسجد الاقصیٰ میں نماز کی اقامت کا مشاہدہ کریں گے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

18 − 1 =