سیاسیات- فلسطینی حکام اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کے فلسطینی شہریوں پر حملوں پر اسرائیل کی سکیورٹی فورسز کی ’مکمل خاموشی‘ اور ’کمزور‘ حکومتی ردعمل کی مذمت کی ہے۔
ذرائع کے مطابق اسرائیلی آباد کاروں نے پیر کو دھاوا بولتے ہوئے فلسطینی قصبے میں درجنوں کاروں اور گھروں کو نذر آتش کر دیا۔
شمالی مغربی کنارے میں فلسطینیون کے ہاتھوں دو اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کے بعد تشدد میں ایک فلسطینی شہری بھی مارا گیا۔
منگل کو مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک اور کار سوار کو اسی انداز میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ مقتول کے پاس امریکی اور اسرائیلی دونوں ملکوں کی شہریت تھی۔
اس سال اب تک اسرائیلی فوجیوں اور عام شہریوں کے ہاتھوں 62 فلسطینی قتل ہو چکے ہیں۔
جب کہ اسی عرصے میں فلسطینیوں کے حملوں میں 14 اسرائیلی مارے گئے۔ سال 2023 کے آغاز سے مشرقی بیت المقدس سمیت مغربی کنارے میں محاذ آرائی میں اضافہ ہوا ہے۔
پیر کو فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے سربراہ حسین الشیخ نے فلسطینی امور کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ہادی عمرو سے ملاقات کی جس میں فلسطینیوں کو آبادکاروں اور فوجی حملوں سے بچانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔
الشیخ اور ہادی عمرو نے نابلس، حوارہ اور مغربی کنارے کے دیگر شہروں میں آباد کاروں کے وحشیانہ تشدد کے بارے میں بات کی۔
ہادی عمرو نے منگل کو حملوں کے بعد حوارہ کا دورہ کیا اور وہاں کے مکینوں کی مشکلات سنیں۔ انہیں رہائشیوں کے نقصانات کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔
بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا کہ ہادی عمرو نے’حوارہ حملے کے متاثرین کے پاس گئے اور افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے آباد کاروں کی طرف سے اندھا دھند، وسیع اور تشدد کی ناقابل قبول کارروائیوں کی مذمت کی۔‘
بیان کے مطابق ہادی عمرو کا کہنا تھا کہ وہ ’مغربی کنارے میں تشدد میں اضافے پر بہت فکر مند ہیں۔ ہم ان گھناؤنے حملوں کے ذمہ داروں کے قانون کے ذریعے مکمل احتساب، قانونی چارہ جوئی اور ان لوگوں کے لیے معاوضہ چاہتے ہیں جو املاک سے محروم ہو گئے یا کسی اور طرح سے املاک کو نقصان پہنچا۔‘
الشیخ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’ہم نے بہت سے علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ خاص طور پر فلسطینی عوام کے خلاف وحشیانہ حملوں جن میں قابضین اور آباد کاروں کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل اور ان کے گھروں کو جلانا بھی شامل ہے۔
تازہ ترین حملے نابلس، حوارہ اور مغربی کنارے کے شہروں میں کیے گئے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملاقات ’فلسطینی قیادت اور امریکی انتظامیہ کے درمیان ملاقاتوں کے سلسلے کا تسلسل ہے۔‘
دوسری جانب اسرائیلی حکام نے ابھی تک حوارہ میں تشدد کے واقعات پر کسی گرفتاری یا مقدمہ چلانے کا اعلان نہیں کیا۔
اعلیٰ فلسطینی اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’حوارہ میں جو کچھ ہوا وہ بہت خوفناک ہے اور اس واقعے کی گھناونے پن نے امریکہ کو اسرائیل کے خلاف زیادہ سخت زبان استعمال کرنے پر مجبور کر دیا تا کہ قصبے کو اس کے پاگل پن سے بچانے کی کوشش کی جائے جو خطے کی تباہی کا باعث بنے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ان حالات میں کہ جب اسرائیلی فوج اور آباد کار فلسطینیوں پر باری باری ظلم کر رہے تھے، حوارہ کے رہائشیوں کے گھروں اور گاڑیوں کو نذر آتش کرنے میں ان کے کردار آپس میں مربوط ہو گئے۔‘
فلسطینی سیاسی تجزیہ کار غسان خطیب نے عرب نیوز کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ ’بڑی احتیاط کے ساتھ‘ اسرائیلی حکومت سے رابطہ کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بائیڈن انتظامیہ محض تقریر کرنے اور اسرائیلی اقدامات کی مذمت تک محدود ہے۔ اسرائیلی زبان تنقید کو سنجیدہ نہیں لیتا اس لیے اس کا اثر تقریباً محدود ہے۔‘