سیاسیات- غزہ میں حماس اور مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے جنگ بندی معاہدے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جن کی آنکھوں سے آنسو بہے، ہم نہ بھولیں گے، نہ معاف کریں گے، ہم تمام مزاحمتی گروپس کے مجاہدین کو سلام پیش کرتے ہیں، خاص طور پر القدس بریگیڈ کے مجاہدین کو جو اسلامی جہاد کی صف اول کے ساتھی ہیں۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں وزیر اعظم محمد بن عبد الرحمان بن جاسم الثانی نے غزہ جنگ بندی معاہدہ طے پانے کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدہ کروانے کے لیے قطر، مصر اور امریکا کی کوششیں کامیاب ہوگئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کا اطلاق19 جنوری سے ہوگا، حماس اور اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے مراحل پر عمل درآمد کے حوالے سے کام جاری ہے۔
جنگ بندی معاہدے کے اعلان کے بعد غزہ میں حماس اور مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے اپنے تفصیلی بیان میں کہا کہ اس تاریخی لمحے میں، جو ہمارے عوام کی جدو جہد اور مسلسل صبر کا نتیجہ ہے جو دہائیوں سے جاری ہے اور جس کے بعد ایک نیا دور شروع ہوگا ، ہم غزہ کے عظیم عوام کو فخر اور عظمت کے تمام الفاظ پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اے اہل غزہ، اے عظمت کے حامل لوگو، اے شہداء، زخمیوں، اسیران اور مفقودین کے اہل خانہ، جنہوں نے وعدہ سچ ثابت کیا، صبر کیا، اور وہ تکالیف برداشت کیں جن کا کسی نے بھی پہلے سامنا نہ کیا اور آپ نے وہ سب کچھ جھیلا جو کسی اور نے نہ جھیلا۔ آپ صبر کے ہر موقع پر ثابت قدم رہے، جہاد کے میدان میں لڑے اور اللہ کے حکم سے عظیم ترین عزت حاصل کی۔
ان تمام افراد کو سلام جو اس عظیم اور مقدس لڑائی میں شریک ہوئے: ڈاکٹر خلیل الحیہ
ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ خوشی ہے کہ آپ کے عزم، جدو جہد، صبر، قربانیوں اور آپ کی بے شمار خدمات کا صلہ ملے گا، ہم اس لمحے میں عظیم شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جن میں بچے، خواتین، بزرگ، علماء، مجاہدین، ڈاکٹرز، صحافی، دفاعی اہلکار، حکومت اور پولیس کے ارکان، اور قبائلی افراد شامل ہیں۔ ہم ان تمام افراد کو سلام پیش کرتے ہیں جو اس عظیم اور مقدس لڑائی میں شریک ہوئے اور ان کو خاص طور پر سلام پیش کرتے ہیں جو ان کے بعد عہد پر ثابت قدم رہے اور اس راہ کو جاری رکھا اور اس پرچم کو ان کے بعد اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ان عظیم شہداء کے ساتھ کھڑے ہیں جن کے جسموں کے ٹکڑے اس معرکہ میں بکھر گئے، جیسے شہید اسماعیل ہنیہ ابو العبد، شہید یحییٰ السنوار ابو ابراہیم، شہید صالح العاروری ابو محمد، اور غزہ میں تحریک کی سیاسی و فوجی قیادت کے دیگر ارکان۔ہم تمام مزاحمتی اور مجاہدانہ فصائل کے شہداء کے سامنے بھی احترام سے سر جھکاتے ہیں اور ان سے اور ہمارے عوام سے کہتے ہیں کہ ہمارے قائدین اور شہداء کی تجارت اللہ کے ساتھ ہے، یہ تجارت کبھی ضائع نہیں ہوگی۔ ہم ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یا تو فتح پائیں گے یا شہادت کی دولت سے نوازے جائیں گے، ان شاء اللہ۔
ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ طوفان الاقصیٰ کی جنگ ہمارے مسئلے اور ہمارے عوام کی مزاحمت کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی ہے اور اس جنگ کے اثرات کا تسلسل جاری رہے گا، یہ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی نہیں رکے گی۔7 اکتوبر کو جو معجزہ اور عسکری و سکیورٹی کامیابی عمل میں آئی تھی، جو کہ حماس کی القسام بریگیڈ کے منتخب دستوں نے انجام دی، وہ ہمارے عوام اور ہماری مزاحمت کے لیے ہمیشہ فخر کا باعث رہے گی، جو نسل در نسل منتقل ہوگی۔ یہ حملہ دشمن کے لیے کاری ضرب ثابت ہوا اور یہ قابض دشمن عنقریب ہمارے وطن، قدس اور ہمارے مقدس مقامات سے رخصت ہو جائے گا، ان شاء اللہ۔
ہمارے عوام کبھی نہیں بھولیں گے کہ کس نے اس نسل کشی میں حصہ لیا: خلیل الحیہ
انہوں نے کہا کہ قابض افواج اور ان کے حامیوں کی طرف سے کی گئی وحشیانہ نسل کشی، نازی جنگی جرائم اور انسانیت دشمن اقدامات، جو 467 دنوں تک جاری رہے، ہمیشہ ہمارے عوام اور دنیا کی یادوں میں محفوظ رہیں گے۔ یہ جدید دور کی سب سے بھیانک نسل کشی ہوگی، جس میں تکالیف، اذیتیں اور مصائب کے تمام رنگ شامل تھے۔نسل کشی کی جنگ کے وہ فصول ہمیشہ انسانیت کے ماتھے پر ایک دھبہ بن کر رہیں گے اور دنیا کے خاموش اور کمزور کردار کی علامت ہوں گے۔ ہمارے عوام کبھی نہیں بھولیں گے کہ کس نے اس نسل کشی میں حصہ لیا، چاہے وہ سیاسی اور میڈیا سطح پر اس کے لیے پردہ ڈالنے والے ہوں، یا وہ جنہوں نے ہزاروں ٹن بموں اور بارودی مواد کو غزہ کے معصوم عوام پر گرا دیا۔ ہم یہ بات یقین سے کہتے ہیں کہ یہ تمام مجرم اپنے کیے کی سزا پائیں گے، چاہے اس میں وقت لگے۔
جن کی آنکھوں سے آنسو بہے، ہم نہ بھولیں گے، نہ معاف کریں گے: خلیل الحیہ
ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ یتیموں، بچوں، بیواؤں، تباہ حال گھروں کے مالکان، شہداء، زخمیوں اور غمزدہ افراد کے نام پر اور ہر اس فرد کی طرف سے جس کا خون بہا، یا جس کی آنکھوں سے آنسو بہے، ہم ان کی طرف سے یہ کہتے ہیں کہ’ ہم نہ بھولیں گے، نہ معاف کریں گے، ہاں، ہم نہ بھولیں گے، نہ معاف کریں گے’۔
انہوں نے کہا کہ قابض افواج نے حملے کے آغاز سے ہی کئی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی، کچھ کو کھلے عام بیان کیا اور کچھ کو چھپایا۔ انہوں نے صاف طور پر کہا کہ ان کا مقصد مزاحمت کا خاتمہ، حماس کا صفایا، اور اسیران کو فوجی طاقت سے بازیاب کرنا تھا، اور علاقے کی شکل بدلنا تھا۔ ان کا چھپا ہوا مقصد فلسطینی مسئلہ ختم کرنا، غزہ کو تباہ کرنا، غزہ کے عوام سے انتقام لینا، اور ہمارے عوام کی آزادی کی خواہش کو مٹا دینا تھا، ساتھ ہی 7 اکتوبر کی جرات مندانہ کامیابی کے اثرات کو ختم کرنا تھا۔ تاہم، قابض افواج کو ہمارے عوام کی پختہ عزم اور اپنی سرزمین سے محبت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اپنے کسی بھی اعلان شدہ یا پوشیدہ مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ہمارے عوام نے اپنی سرزمین پر ڈٹے رہ کر ثابت کر دیا کہ وہ نہ ہجرت کریں گے، نہ پیچھے ہٹیں گے اور انہوں نے مزاحمت کا مضبوط ترین حصار بن کر دشمن کا مقابلہ کیا۔
غزہ میں حماس کے سربراہ و مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ نے کہا کہ ہمارے مجاہدین، خاص طور پر القسام بریگیڈ کے بہادر سپاہیوں نے، جنہوں نے اپنی جرات مندانہ کارروائیوں اور بے مثال بہادری سے دنیا کو حیران کن حد تک متاثر کیا، اس جنگ کے آخری لمحے تک محاذ پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے اپنے عزم و حوصلے سے دفاع و حملے کے دوران بے مثال کارنامے انجام دیے، جیسے بارودی سرنگیں نصب کرنا، گولہ بارود فائر کرنا، گھات لگانا، اور صفر نقطے سے لڑنا، اور دشمن پر اتنا اثر ڈالا کہ قابض افواج کے جنگی آلات جل کر تباہ ہوگئے۔
قابض افواج کبھی ہمارے عوام اور مزاحمت کو شکست نہیں دے سکتی: خلیل الحیہ
انہوں نے کہا کہ ہم تمام مزاحمتی گروپس کے مجاہدین کو سلام پیش کرتے ہیں، خاص طور پر القدس بریگیڈ کے مجاہدین کو جو اسلامی جہاد کی صف اول کے ساتھی ہیں۔ انہوں نے آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں اور اپنے وطن و عوام کے دفاع میں عظیم مثال قائم کی۔ ہم آج یہ ثابت کرتے ہیں کہ قابض افواج کبھی بھی ہمارے عوام اور مزاحمت کو شکست نہیں دے سکتی، اللہ کی مدد سے، جو اس نے ہمیں عطا کی ہے۔ قابض افواج نے ہمارے عوام کے خلاف جو تباہی، خونریزی اور قتل عام کیا، وہ صرف ایک بات کی تصدیق کرتا ہے کہ انہوں نے ہمارے اسیران کو بھی مزاحمت کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے ذریعے واپس لیا۔
غزہ میں حماس کے سربراہ و مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ ہم خاص طور پر لبنان کے عزیز بھائیوں کا ذکر کرتے ہیں، خاص طور پر حزب اللہ کے مجاہدین، جنہوں نے القدس کی آزادی کے لیے سیکڑوں شہداء دیے، اور ان کی قیادت، جن کی سرپرستی میں یہ کارنامے انجام پائے، جن میں سید حسن نصر اللہ اور ان کے ساتھی شامل ہیں۔ہم اسلامی جماعتوں کے بھائیوں کی مدد کو بھی یاد کرتے ہیں اور لبنان کے عوام کی عظیم مزاحمت اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں، جنہوں نے ہمارے فلسطینی عوام کے دفاع میں بڑی ثابت قدمی دکھائی اور انہیں بے شمار مشکلات میں معاونت فراہم کی۔ انہوں نے قابض افواج کی زندگی کو عذاب اور بربادی میں بدل دیا، اور اس میں اسلامی اور عربی بھائی چارے کی حقیقی مثال پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم یمن کے بھائیوں، انصار اللہ، کو بھی یاد کرتے ہیں، جو جغرافیائی فاصلے کو عبور کر کے جنگ کے میدان میں نئی حقیقتیں لائے اور قابض دشمن کے قلب پر میزائل اور ڈرون حملے کر کے اسے بحیرہ احمر میں محصور کر دیا۔ہم اسلامی جمہوریہ ایران کے بھائیوں کا بھی شکر ادا کرتے ہیں، جنہوں نے ہماری مزاحمت اور عوام کی مدد کی، جنگ میں حصہ لیا اور “وعدہ صادق” (1) اور (2) آپریشنز میں دشمن کے قلب کو نشانہ بنایا، نیز عراقی مزاحمت نے تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے فلسطین اور اس کی مزاحمت کی مدد کی اور اس کی میزائلیں اور ڈرونز ہمارے مقبوضہ علاقوں تک پہنچ گئے۔
ڈاکٹر خلیل الحیہ نے کہا کہ ہم ان تمام ممالک کو بھی یاد کرتے ہیں جو مختلف میدانوں میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے: جیسے ترکیہ، جنوبی افریقا، الجزائر، روس، چین، ملیشیا، انڈونیشیا، بیلجیئم، اسپین، آئرلینڈ اور دنیا کے تمام باضمیر انسان، ہم اُن تمام افراد کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہماری حمایت قلم، تصویر، مظاہروں، بائیکاٹ کے ہتھیار اور سیاسی، سفارتی اور قانونی جدوجہد کے ذریعے کی۔ ان تمام باضمیر انسانوں کا شکریہ جو خاموشی کی سازش کو توڑتے ہوئے قابض دشمن کی انسانیت سوز جرائم کو بے نقاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔
ہم دنیا کو بتائیں گے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں: ڈاکٹر خلیل الحیہ
انہوں نے کہا کہ آج ہم ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں، یہ تعمیر، دلجوئی اور غزہ کی تعمیر نو کا مرحلہ ہے۔ یہ یکجہتی اور ہم دردی کا مرحلہ ہے، جس کے ذریعے ہم دنیا کو بتائیں گے کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں، جو تعمیر کرتی ہے، تخریب نہیں۔ ہم وہ سب کچھ دوبارہ تعمیر کریں گے جو قابض افواج نے برباد کیا ہے۔
ڈاکٹر خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ اے اہلِ غزہ، جس طرح آپ جنگ میں مردانگی اور جرات کا مظاہرہ کر چکے ہیں، اسی طرح جنگ کے بعد بھی اپنے عظیم کردار کو جاری رکھیں گے۔ ہم ایک دوسرے پر رحم کریں گے اور متحد رہیں گے۔ بے شک، جو دکھ اور تکلیف ہم نے جھیلی ہے، وہ بہت بڑی ہے، لیکن اس قوم کی عظمت اور اس کے اخلاق اس سے بھی زیادہ عظیم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کے فضل سے اور اپنے بھائیوں، دوستوں، اور ہمدردوں کی مدد سے غزہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کے قابل ہیں۔ ہم اپنے زخموں پر مرہم رکھیں گے، یتیموں کے سروں پر دستِ شفقت رکھیں گے، غم زدہ دلوں کے آنسو پونچھیں گے، اور ان لبوں پر مسکراہٹیں واپس لائیں گے جنہیں جنگ نے چھین لیا تھا۔ ہمارے بہادر قیدی بھی آزادی کے ایک روشن صبح کے منتظر ہیں، ان شاء اللہ۔