سیاسیات- غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی مسلسل کاروائیوں میں سال 2023ء کے دوران چار خواتین اور چار کمسن لڑکوں سمیت 120 بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا۔
آج جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق شہید ہونے والوں میں سے 41 کو جعلی مقابلوں اور دوران حراست شہید کیا گیا۔ بھارتی پولیس نے ایک ہندو کو بھی جموں کے جوڑیاں تھانے میں دوران حراست قتل کر دیا اور ایک اور ہندو کو بھارتی فوجیوں نے ضلع جموں کے علاقے شوارا کھور اکھنور میں قتل کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجیوں، پیراملٹری فورسز اور پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں شہادتوں کے نتیجے میں 18خواتین بیوہ اور 58 بچے یتیم ہو گئے جبکہ بھارتی فورسز نے 7 خواتین کی بے حرمتی کی۔
رپورٹ کے مطابق کم از کم 14کشمیری سرکاری ملازمین کو بی جے پی حکومت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کی حمایت کرنے پر ملازمت سے معطل یا برطرف کیا ہے جبکہ کم از کم 72 جائیدادیں جن میں زرعی اراضی، مکان اور دکانیں شامل ہیں، مودی حکومت نے ضبط کر لیں تاکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھارت کی طرف سے تسلیم شدہ حق خودارادیت کے مطالبے کے لیے لوگوں کی آواز کو خاموش کرایا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ صرف دسمبر 2023ء کے مہینے میں بھارتی فوجیوں نے 7 کشمیریوں کو شہید کیا اور ان میں سے 3 کو دوران حراست شہید کیا گیا۔ اس ایک ماہ میں خواتین سمیت کم از کم 97 نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 5 اگست 2019ء سے اب تک بھارتی فوجیوں، پیراملٹری فورسز اور پولیس اہلکاروں نے 852 کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مقبوضہ علاقے میں گزشتہ 35سال کے دوران 96 ہزار 285 کشمیری بھارتی گولیوں کا نشانہ بنے یا ماورائے عدالت قتل کئے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فورسز نے علاقے میں 13 رہائشی مکانات اور عمارات کو تباہ کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ طاقت کے وحشیانہ استعمال اور تشدد سے کم از کم 107 افراد زخمی ہوئے جبکہ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے گھروں پر چھاپوں اور محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنما بلال صدیقی، شبیر احمد ڈار، فردوس احمد شاہ، جہانگیر غنی بٹ، سلیم نناجی، سجاد حسین گل، محمد یاسین بٹ ،شمس الدین رحمانی، عمر عادل ڈار، مولانا سرجان برکاتی، حسن فردوسی، صحافی عرفان معراج اور ماجد حیدری، طلباء، کمسن لڑکوں اور خواتین سمیت 3610 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے کئی کو پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام جیسے کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔