سیاسیات۔ فلسطین کی مقاومتی تحریک “جہاد اسلامی” کے تہران میں نمائندے “ناصر ابو شریف” نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کے مراحل میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں اور اس سلسلے میں کسی بھی واقعے کے رونماء ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے صیہونی رژیم سے جُڑی سیاسی تبدیلیوں اور جنگ بندی کے پس منظر میں ہونے والی پیشرفت کے بارے میں اِن خیالات کا اظہار کیا جب وہ انتفاضہ و قدس کمیٹی کے تیسرے یکجہتی اجلاس میں شریک تھے۔ اس موقع پر ناصر ابو شریف نے کہا کہ چونکہ صیہونی وزیراعظم “نتین یاہو” کو داخلی طور پر عدالتی ٹرائل کا سامنا ہے اس لئے ممکن ہے کہ وہ اس خطرے سے اپنی جان بچانے کے لئے جنگ جاری رکھنے کی کوشش کریں۔ تاہم اس رژیم کے بہت سارے اعلیٰ عسکری و سیاسی عہدیدار دوبارہ جنگ شروع کرنے کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض عرب ممالک “ڈونلڈ ٹرامپ” اور “نتین یاہو” کی ہمارے خلاف سازش میں شامل ہو کر فلسطین کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
ناصر ابو شریف نے کہا کہ دشمن اس کوشش میں ہے کہ وہ غزہ کے حوالے سے امریکی صدر اور نتین یاہو کے مذکورہ بالا خیالی منصوبے کو عملی جامہ پہنائے۔ جہاد اسلامی کے نمائندے نے عالمی سطح بالخصوص امریکہ میں صیہونی پالیسیوں کی وسیع مخالفت کی جانب اشارہ کیا۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ اکثر سروے میں امریکی عوام اسرائیل کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ اس صورت حال میں استقامتی محاذ کو چاہئے کہ وہ اپنے باہمی اتحاد و یگانگت کو برقرار رکھے۔ بالخصوص انفارمیشن اور میڈیا کے شعبوں میں مل کر اہم اقدامات اٹھائیں۔ ناصر ابو شریف نے امریکہ میں آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی فیلم کا ذکر کیا جس میں رائے عامہ پر پروپیگنڈہ کے اثرات کو دکھایا گیا ہے۔ آخر میں انہوں نے فلسطینی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور مقاومت کے حامیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ دانشمندی سے قدم اٹھائیں اور اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھتے ہوئے اس صورت حال سے فائدہ اٹھائیں۔