سیاسیات- ایک فلسطینی ذریعے نے المیادین کو دئے گئے انٹرویو میں قیدیوں کے تبادلے کے لیے امریکا کی جانب سے پیش کیے گئے نئے مجوزہ پلان میں تل ابیب کے لیے واشنگٹن کی مکمل حمایت کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔
فلسطینی باخبر ذریعے نے المیادین کو بتایا کہ غزہ کی پٹی میں قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی کے حوالے سے نئی امریکی تجویز فریقین کے درمیان پہلے سے طے شدہ جنگ بندی کی تجویز سے مکمل طور پر متصادم ہے۔
اس فلسطینی ذریعے نے کہا کہ نئی تجویز مئی کے مہینے میں پیش کردہ تجویز پر مبنی ہے جو “اسرائیل” کی نئی شرائط اور مطالبات کو پورا کرتی ہے اور امریکی تجویز تل ابیب کے موقف اور نیتن یاہو کے نئے مطالبات کے مطابق ہے۔ اس تجویز میں مستقل جنگ بندی شامل نہیں ہے، اور یہ اس مسئلے کو دوسرے مرحلے میں ایک خاص حد کے اندر جانچتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی تجویز میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اگر حماس اسرائیل کے مطالبات پر راضی ہو جائے تو قابض رجیم دوسرے مرحلے میں جنگ دوبارہ شروع کر دے گی جب کہ تجویز میں غزہ کی پٹی سے مکمل انخلاء شامل نہیں ہے، لیکن اس میں “اسرائیلی” فوج کی موجودگی میں کمی کے ساتھ فلاڈیلفیا کوریڈور اور “نتساریم” چوراہے پر قبضہ برقرار رکھنا شامل ہے۔
اس باخبر فلسطینی ذریعے نے مزید کہا کہ امریکی تجویز میں اسرائیل کے کم از کم 100 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی مخالفت کرنے کے حق پر زور دیا گیا ہے، اور فلسطین سے باہر قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت آزاد کیے گئے فلسطینی قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کو ملک بدر کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کو امداد فراہم کرنے کے لیے امریکی تجویز مشروط ہے کہ حماس تجویز کی تمام شقوں سے اتفاق کرے اور غزہ کی تعمیر نو اور ناکہ بندی اٹھانے کے حوالے سے مذاکرات کو اس وقت تک ملتوی کر دیا کہ جب تک اس کے نتائج سامنے نہ آئیں۔
مذکورہ باخبر فلسطینی نے مزید بتایا کہ امریکی تجویز کے مطابق حماس عمر قید کی سزا پانے والے 300 فلسطینی قیدیوں کے نام پیش کرے گی تاہم قابض رجیم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان قیدیوں میں سے 65 کی رہائی کو قبول نہ کرے۔