سیاسیات۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے صدر توموکو اکانے، نے پیر کو ان کی عدالت پر ہونے والے حملوں پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
آئی سی سی غزہ اور یوکرین کی جنگوں پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کے بعد توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔
آئی سی سی نے گذشتہ مہینے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو، ان کے سابق وزیر دفاع اور حماس کے ایک اہم رہنما کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، جس کے بعد سے یہ عدالت بعض حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔
آئی سی سی کے ججوں نے فیصلے میں کہا کہ تینوں مذکورہ افراد پر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ’معقول شواہد‘ موجود ہیں، جن کا تعلق سات اکتوبر کے حماس حملوں اور غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے ساتھ ہے۔
نیتن یاہو نے عالمی عدالت کے فیصلے کو ’یہود مخالف‘ جب کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلیوں کے خلاف وارنٹس کو ’اشتعال انگیز‘ قرار دیا۔
دی ہیگ میں آئی سی سی کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے، آئی سی سی کی صدر توموکو اکانے نے کہا کہ عدالت کو ’زبردستی کے اقدامات، دھمکیوں، دباؤ، اور تخریب کاری کے اقدامات‘ کا سامنا ہے۔
’ہم تاریخ کے نازک موڑ پر ہیں۔ بین الاقوامی قانون اور انصاف خطرے میں ہیں۔ اسی طرح انسانیت کا مستقبل بھی۔‘
انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ ’بین الاقوامی فوجداری عدالت اپنی قانونی ذمہ داری آزادانہ اور غیر جانبدارانہ طور پر، کسی بیرونی مداخلت کے بغیر پوری کرتی رہے گی۔
آئی سی سی کے پاس روسی صدر ولادی میر پوتن کی گرفتاری کا وارنٹ زیر التوا ہے، جس پر ماسکو نے اعلیٰ عدالت کے عہدے داروں کی گرفتاری کے اپنے وارنٹس جاری کر کے ردعمل ظاہر کیا۔
کچھ امریکی ریپبلکنز نے سینیٹ سے آئی سی سی پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا، جس کے 124 رکن ممالک ہیں، جن میں امریکہ، اسرائیل، یا روس میں سے کوئی شامل نہیں ہے۔
ان اقدامات کے حوالے سے اکانے نے کہا: ’کئی منتخب عہدے داروں کو سخت دھمکیاں دی جا رہی ہیں اوراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک مستقل رکن کی جانب سے گرفتاری کے وارنٹ کا سامنا ہے۔
’عدالت کو ایک اور مستقل رکن کے اداروں کی جانب سے سخت اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، جیسے یہ کوئی دہشت گرد تنظیم ہو۔‘
اکانے کا کہنا تھا کہ یہ ’افسوسناک‘ ہے کہ کچھ ممالک اس وقت ’حیرت زدہ‘ نظر آتے ہیں جب آئی سی سی بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کرتی ہے۔
’اگر عدالت ختم ہو گئی تو اس کے تمام مقدمات اور صورت حال بھی ختم ہو جائیں گے… عدالت کے لیے خطرہ حقیقی نوعیت کا ہے۔‘