سیاسیات- صہیونی ذرائع ابلاغ کے مطابق نتن یاہو کی مقبولیت میں آئے روز کمی آرہی ہے جس کی وجہ مجوزہ عدالتی منصوبے کے ساتھ ساتھ مقاومتی تنظیموں کے حملے ہیں۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں صہیونی حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ مزید بڑھ گیا ہے۔ نتن یاہو کی جانب سے پیش کردہ عدالتی اصلاحات کے منصوبے کے خلاف لاکھوں صہیونی تل ابیب اور دوسرے شہروں کی سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔ 150 چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاج ہورہے ہیں جبکہ ان کا مرکز تل ابیب ہے۔
ذرائع کے مطابق اب تک مظاہرین کی تعداد 2 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ مظاہروں کا مرکز تل ابیب کا ھابیما اسکوائر ہے جہاں تقریبا ڈیڑھ لاکھ صہیونی جمع ہوچکے ہیں۔ سابق وزیر جنگ موشہ بوگی یالون نے تل ابیب میں صورتحال کو تشویشناک قرار دیا ہے۔ مظاہرین کی قیادت کرنے والے سابق وزیراعظم لاییر لاپیڈ اور بنی گانتز نے نتن یاہو کابینہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ نتن یاہو اور ان کی کابینہ سے مذاکرات کیسے کرسکتے ہیں۔ ڈکٹیٹر سے مذاکرات کا کوئی امکان نہیں ہے۔
مقبوضہ علاقوں میں صہیونی گذشتہ پانچ مہینوں سے نتن یاہو کے مجوزہ عدالتی منصوبے کے خلاف مظاہرے کرکے منصوبے کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ نتن یاہو نے مظاہرین کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے عدالتی منصوبے کو کچھ عرصے کے لئے ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے تقریر کے دوران کہا تھا کہ قوم کو تفرقے سے بچانے کے لئے وہ اپنے منصوبے کو ملتوی کررہے ہیں۔
مقبوضہ علاقوں میں مظاہرے دوبارہ شروع ہونا ظاہر کرتا ہے کہ صہینویوں کو نتن یاہو کے وعدے پر کوئی اعتبار نہیں ہے۔ داخلی طور پر دباو میں اضافے سے نتن یاہو حکومت کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگیا ہے۔ صہیونی اخبار معاریو نے حال ہی میں ایک سروے کے ذریعے انکشاف کیا تھا کہ نتن یاہو کی مقبولیت میں واضح کمی آئی ہے۔ عوم ان کے عدالتی اصلاحات کے منصوبے سے ناراض ہے جس کا مقصد کابینہ کے مقابلے میں عدلیہ کے اختیارات کو کم کرنا ہے۔
اخبار کے مطابق نتن یاہو کی عوام میں مقبولیت میں کمی آنے کے بعد سابق وزیر جنگ بنی گانتز عوام میں زیادہ مقبول ہورہے ہیں۔ موجودہ حالات میں اگر انتخابات ہوجائیں تو نتن یاہو کا اتحاد پارلیمنٹ کی پچاس سیٹوں پر کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ اس اتحاد کے پاس اس وقت 64 سیٹیں ہیں۔
روزنامہ معاریو کے مطابق نتن یاہو کے غیر مقبول ہونے میں عدالتی اصلاحات کے منصوبے کے ساتھ ساتھ مقاومتی تنظیموں کی مقبوضہ علاقوں میں مسلح کاروائیاں بھی ہیں۔