دسمبر 22, 2024

شام میں الاسد خاندان کے 50 سالہ اقتدار پر ایک نظر

سیاسیات۔ 5 دہائیوں سے زائد عرصے تک شام پر حکومت کرنے والے الاسد خاندان کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا ہے۔

شام میں باغیوں نے مختلف شہروں کے بعد 8 دسمبر کو دارالحکومت دمشق پر بھی قبضہ کرلیا جبکہ بشار الاسد ملک سے فرار ہوگئے۔

صدر بشار الاسد کے ملک سے فرار ہونے کے بعد باغی گروپ تحریر الشام ملیشیا کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے اپنے بیان میں کہا کہ پُرامن انتقال اقتدار تک سابق وزیراعظم محمد غازی الجلالی تمام ریاستی اداروں کو چلائیں گے۔

کس طرح الاسد خاندان نے شام میں اقتدار کا آغاز کیا اور کس طرح وہ زوال کا شکار ہوا۔

1970-71 : حافظ الاسد نے بغاوت کی قیادت کی اور صدر بن گئے

حافظ الاسد اس وقت شامی حکومت میں وزیر دفاع تھے اور انہوں نے ایک تحریک کی قیادت کرتے ہوئے 16 نومبر 1970 کو فوجی بغاوت کی۔

وہ 1971 میں بعث پارٹی کے امیدوار کے طور پر شام کے صدر منتخب ہوئے کیونکہ ان کے مقابلے پر کوئی امیدوار ہی کھڑا نہیں ہوا۔

1973 : اسرائیل سے جنگ

شام اور مصر نے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا تھا تاکہ 1967 کی 6 روزہ جنگ میں اسرائیلی قبضے میں جانے والی زمین کو دوبارہ حاصل کیا جاسکے۔

مگر اس جنگ میں دونوں ممالک کو شکست ہوئی اور شام گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کو دینے پر مجبور ہوگیا۔

1982 : حماہ میں قتل عام

حافظ الاسد حکومت نے حماہ شہر میں اخوان المسلمین کی تحریک کے خلاف خونی آپریشن کیا۔

مختلف تخمینوں کے مطابق حکومتی کریک ڈاؤن میں 10 سے 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

1994 : باسل الاسد کا انتقال

باسل حافظ الاسد کے بڑے بیٹے اور ممکنہ جانشین تھے جو 1994 میں گاڑی کے ایک حادثے میں ہلاک ہوئے۔

اس واقعے کے بعد حافظ الاسد نے اپنے چھوٹے بیٹے بشار الاسد کو قیادت کے لیے تیار کرنا شروع کیا، حالانکہ اس وقت بشار الاسد ماہر امراض چشم کے طور پر تربیت حاصل کر رہے تھے۔

2000 : حافظ الاسد کا انتقال اور بشار الاسد کے اقتدار کا آغاز

لگ بھگ 30 سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد حافٖظ الاسد کا انتقال 10 جون 2000 کو ہوا۔

بشار الاسد کی عمر اس وقت 34 سال تھی اور انہیں صدر بنانے کے لیے آئین میں تبدیلیاں کرکے صدر کے لیے کم از کم عمر کی حد کو کم کیا گیا، جس کے بعد وہ صدر منتخب ہوئے کیونکہ ان کے مقابلے پر کوئی امیدوار کھڑا نہیں ہوا۔

2000-2011 : بشار الاسد کے اقتدار کا ابتدائی عرصہ

ستمبر 2000 میں 100 دانشوروں نے مارشل لا اٹھانے اور زیادہ سیاسی آزادی دینے کا مطالبہ کیا، جسے بہار دمشق کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بشار الاسد نے ابتدا میں محدود اصلاحات متعارف کرائیں جیسے معیشت پر حکومتی کنٹرول کو کم کیا جبکہ کچھ سیاسی پابندیوں کو نرم کردیا، مگر ان اصلاحات کی زندگی مختصر المدت رہی اور حکومت نے ایک بار پھر آمرانہ روش اپناتے ہوئے مخالفین کے ٓخلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔

کرپشن، معاشی عدم مساوات اور سیاسی مخالفین کو دبانے کا سلسلہ برقرار رہا جس سے حالات بتدریج خراب ہونے لگے۔

2011 : شامی خانہ جنگی کا آغاز

عرب بہار سے متاثر ہوکر شام بھر میں مظاہرین نے سیاسی آزادی اور کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ کیا، جس کے جواب میں بشار الاسد کی حکومت نے پرتشدد کریک ڈاؤن کیا جس پر خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا۔

یہ تنازع شدت پکڑتا گیا کیونکہ متعدد مخالف گروپس ابھرے جبکہ غیر ملکی طاقتیں جیسے امریکہ، روس اور دیگر اس میں ملوث ہوگئیں۔

اس خانہ جنگی کے نتیجے میں 3 لاکھ 88 ہزار سے زائد اموات ہوئیں جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہوگئے۔

2013 : کیمیائی ہتھیاروں کے الزامات

بشار الاسد حکومت پر غوتہ کے شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کیا گیا اور بین الاقوامی سطح پر اس کی مدمت کی گئی۔

امریکہ اور روس کے دباؤ پر شامی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے تیار ہوگئی، مگر کیمیائی حملوں کی رپورٹس اس کے بعد بھی سامنے آتی رہیں۔

2021 : بشار الاسد چوتھی بار صدر منتخب ہوئے

بشار الاسد 2021 کے متنازع انتخابات میں چوتھی بار صدر منتخب ہوئے اور سرکاری نتائج کے مطابق انہیں 95 فیصد ووٹ ملے۔

2022-2023 : حالات معمول پر لانے کی کوششیں

عرب ریاستوں نے برسوں بعد بشار الاسد کی حکومت سے تعلقات بحال کرنا شروع کیے۔

2023 میں شام کو ایک بار پھر عرب لیگ میں شامل کرلیا گیا۔

2024 : الاسد خاندان کے اقتدار کا سورج ڈوب گیا

دسمبر 2024 میں شامی باغیوں نے اچانک برق رفتاری سے شام میں پیشقدمی شروع کی۔

انہوں نے چند دنوں میں حمص اور حماہ جیسے اہم شہروں پر قبضہ کیا اور حلب شہر پر بھی کنٹرول حاصل کرلیا۔

8 دسمبر کو شامی باغیوں نے بشار الاسد حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا جبکہ رپورٹس کے مطابق بشار الاسد اپنے خاندان کے ساتھ کسی نامعلوم مقام کی جانب فرار ہوگئے۔

بشار الاسد حکومت ختم ہونے پر دمشق کی سڑکوں پر جشن دیکھنے میں آیا اور ہزاروں افراد شہر کے مرکزی چوک پر جمع ہوکر آزادی کے نعرے لگاتے رہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

2 × 5 =