سیاسیات- جرمنی میں شہریت کا نیا قانون نافذ کردیا گیا ہے جس کے تحت شہریت کے خواہش مند افراد کو یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ اسرائیل کو اپنے وجود کا حق حاصل ہے۔
2021 کے انتخابات میں جرمن چانسلر اولاف شولز نے دوہری شہریت کو اپنی انتخابی مہم کا ایک اہم نکتہ بنایا تھا اور نئے شہریوں کے لیے جرمن پاسپورٹ حاصل کرنےکا وقت کم کر کے پانچ سال کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ جرمنی میں اس سے قبل تارکین وطن کی پہلی نسل کو دوہری شہریت رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ تاہم بڑھتی ہوئی یہود دشمنی، حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے بارے میں بڑھتے ہوئے اختلافی مباحث اور تارکین وطن مخالف، انتہائی دائیں بازو کی سیاست کی مقبولیت شہریت کے قانون پر نظر ثانی کی وجہ بنی۔
گزشتہ روزجرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نےکہا کہ ’جو بھی ہماری اقدار کو اپناتا ہے وہ اب پہلے سے کم وقت میں جرمن پاسپورٹ حاصل کر سکتا ہے اور اب اسے اپنی پرانی شہریت بھی ترک نہیں کرنی پڑے گی، لیکن ہم نے یہ بھی بالکل واضح کر دیا ہے کہ جو بھی ہماری اقدار کو نہیں اپناتا وہ جرمن پاسپورٹ حاصل نہیں کر سکتا۔ ہم نے یہاں ایک واضح سرخ لکیر کھینچ دی ہے اور اس حوالے سے قانون کو پہلے سے کہیں زیادہ سخت بنا دیا ہے‘۔
جرمن پارلیمنٹیرینز نے جنوری میں شہریت کے نئے ضابطوں کی قانونی بنیادوں پر اتفاق کیا تھا لیکن شہریت کے ٹیسٹ کا مخصوص مواد حکومتی ضابطے کے ذریعے طے کیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ نے پہلے عندیہ دیا تھا کہ وہ شہریت کے حوالے سے ٹیسٹ میں جرمنی میں یہودیت اور یہودیوں کی زندگی سے متعلق سوالات کو شامل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن یہ بتانے سے گریز کیا تھا کہ آیا اس میں اسرائیلی ریاست کے حوالے سے کوئی مخصوص اعلان شامل ہو گا یا نہیں۔
تاہم گزشتہ روز جرمن وزارت داخلہ نے تصدیق کی کہ یہود دشمنی، اسرائیلی ریاست کے وجود کے حق اور جرمنی میں یہودیوں کی زندگی کے موضوعات پر نئے سوالات شہریت کے ٹیسٹ میں شامل کیے گئے ہیں۔