سیاسیات-جوہری پروگرام پر ایران اور امریکہ کے درمیان عمان میں بالواسطہ مذاکرات کا انکشاف ہوا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ عمان میں گزشتہ ماہ امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات ہوئے جن کا محور ایران کا جوہری پروگرام تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی اور امریکی حکام علیحدہ علیحدہ کمروں میں بیٹھے تھے اور عمانی حکام دونوں وفود کے پیغامات ایک دوسرے کو پہنچانے کا کام کر رہے تھے۔
رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کے رابطہ کار برائے مشرق وسطیٰ بریٹ میک گرک خفیہ طور پر 8 مئی کو عمان پہنچے جہاں انہوں نے ایران سے جوہری پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کے امکانات پر عمانی حکام سے بات کی۔
رپورٹ میں باخبر ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسی دوران ایران سے بھی ایک وفد عمان پہنچا اور اس وفد میں ایران کے چیف نیوکلیئر مذاکرات کار علی باقری بھی شامل تھے۔
ذرائع کے مطابق ایرانی و امریکی وفد کے درمیان براہ راست ملاقات نہیں ہوئی، عمانی حکام دونوں وفود کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتے رہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس دوران امریکہ نے یہ بات واضح کردی کہ اگر ایران نے ایٹم بم بنانے کیلئے درکار یورینیم کی افزودگی کی سطح 90 فیصد تک لے جانے کا سلسلہ بند نہ کیا تو اسے اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
خیال رہے کہ 2015 میں ایران اور 6 عالمی طاقتوں امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس، چین اور جرمنی کے درمیان جوہری معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت ایران نے یورینیم کی افزودگی محدود کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی جس کے بعد ایران پر عائد معاشی پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی۔
2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو ایران کو میزائل پروگرام سے باز رکھنے میں ناکام قرار دیتے ہوئے دستبرداری کا اعلان کردیا تھا۔ ایک سال بعد ایران نے بھی اپنے جوہری پروگرام پر عائد پابندیوں کو نظر انداز کرکے اس میں پیش رفت شروع کردی تھی۔
امریکہ اور ایران دونوں ہی کی خواہش ہے کہ دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہوجائیں تاہم اس حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان شرائط پر اتفاق رائے اب تک نہیں ہوسکا ہے۔
نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایران اور امریکہ ایک عارضی معاہدے کے قریب ہیں جس کے نتیجے میں ایران پر عائد پابندیوں میں کچھ نرمی کی جائے گی اور ایران یورینیم کی افزودگی کو کم کرے گا۔ اس حوالے سے امریکہ اور ایران کے درمیان نیویارک میں مذاکرات بھی ہوئے تھے تاہم اس میں کوئی بریک تھرو نہیں ہوسکا۔
اس حوالے سے ایرانی رکن پارلیمنٹ مجتبیٰ توانگر کا کہنا ہے کہ امریکہ اب بھی ایران کو جوہرے معاہدے کیلئے براہ راست مذاکرات کی میز پر واپس لانا چاہتا ہے تاکہ ایرانی جوہری پروگرام کو محدود کرکے ہمیں معاشی ریلیف فراہم کیا جائے تاہم یہ غیر قانونی مطالبہ اور ہمارے قومی مفادات کیخلاف ہے۔