سیاسیات- ایران کے جوہری ادارے کے سربراہ نے آئی اے ای اے کے ساتھ ایران کے تعاون کو جاری رکھنے پر زور دیا اور کہا کہ ایران اپنے ترقیاتی پروگراموں کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے اور اپنی قومی سلامتی پر کوئی مذاکرات نہیں کرے گا۔
ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی اور ایرانی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے دوطرفہ ملاقات کے بعد ایران ایٹمی توانائی تنظیم کے دفتر میں مقامی اور عالمی میڈیا کے نمائندوں کی موجودگی میں مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
اسلامی نے اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے سربراہ کے دورہ تہران کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسٹر گروسی کا حالیہ دورہ جو کل شروع ہوا، ایران اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے درمیان رابطے اور تعلقات کے قائم ہونے کا پیغام دیتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ تعلقات، وفود کا تبادلہ اور رپورٹس سے اعتماد پیدا ہونا چاہیے۔
انہوں نے فریقین کے مابین اعتماد سازی کے حوالے سے مزید کہا کہ ہمیں قابل اعتماد طریقے سے مسائل کو حل کرنے کے قابل ہونا چاہیے اور ایسے عناصر اور عوامل کی دراندازی اور مداخلت سے بچنا ہوگا جن کا مقصد عام اور پیشہ ورانہ تعاون کو نقصان پہنچانا ہے۔ انہوں نے تعاون کے پائیدار طریقے پر زور دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی جوہری ایجنسی سے ایک ایسے قسم کے مذاکرات کے لیے تیار ہونے کا مطالبہ کیا کہ جن کے تحت عالمی ایجنسی “سیف گارڈ معاہدے کے دائرہ کار کے اندر” ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے اپنے فرائض کو ہمیشہ پائیدار اور اطیمنان بخش حالت پر برقرار رکھ سکے اور ان عناصر کے بہکاوے میں آنے سے گریز کرے جو فریقین کے درمیان تعاون میں رکاوٹ ہیں۔
محمد اسلامی نے ایران کے خلاف قرارداد کے اجراء کے امکان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنے ترقیاتی پروگراموں کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے جو بالکل واضح ہے اور اپنے قومی مفادات کو کسی چیز سے تبدیل نہیں دے گا۔
حالیہ دورے کے دوران ہونے والے اتفاق رائے اور ایران کی جانب سے 84 فیصد افزودگی کے دعوے کے بارے میں، اسلامی نے کہا کہ اگر آپ مسٹر گروسی کی رپورٹ کو دیکھیں تو پتہ چل جائے گا کہ 84 فیصد افزودگی کی نشاندہی اور ہماری پیداوار پر کی جانے والی تحقیقات کے مطابق ایران نے 60 فیصد سے زیادہ افزودگی نہیں کی اور ابہام دور ہو گیا ہے۔
اسلامی نے مشترکہ جامع پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کے باقی ماندہ دستخط کنندگان یعنی فرانس، برطانیہ، جرمنی، چین اور روس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ انہوں نے کہا کہ تین یورپی اور کچھ دوسرے ممالک صرف ایران کیجے سی پی او اے کے تحت ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ ان کی اپنی بھی ذمہ داریاں ہیں جن پر انہیں عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
ایرانی ایٹمی توانائی کے سربراہ نے کہا کہ ہم گروسی کے ساتھ سیف گارڈ اقدامات کے فریم ورک کے اندر اپنے تعاون کی وضاحت کرنے کے لیے ایک معاہدے پر پہنچے ہیں۔ ایک انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمارے تعلقات اس وقت تک سیف گارڈ کی بنیاد پر ہوں گے جب تک کہ وہ ﴿جے سی پی او کے دیگر فریق﴾ اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ اپنی ذمہ داریوں پر واپس نہیں آتے، ایجنسی کو ہماری سرگرمیوں پر اطیمنان رہے اور تضادات یا عدم تعمیل کے اظہار کے اسباب پیدا نہ ہوں۔ اس مسئلے پر ہم نے اتفاق کیا ہے۔
اسلامی نے ایران کی سائنسی تحقیق اور جوہری ٹیکنالوجی کی صلاحیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنی جوہری کامیابیوں کو دوسری اقوام کے ساتھ باٹنے کے لیے ہمیشہ تیار ہے۔
انہوں نے ایران کے پر امن جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنے قومی مفادات اور قومی سلامتی کے ساتھ کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی قرارداد جاری کی جاتی ہے تو بلاشبہ متعلقہ حکام فیصلہ کریں گے اور ہم انہی فیصلوں کے مطابق عمل کریں گے۔
ایران کی ایٹمی تنصیبات کے خلاف صہیونی حکومت کی دھمکیوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں رافیل گروسی نے کہا کہ اس حوالے سے دو الگ الگ مسائل ہیں۔ پہلا، بد قسمتی سے جوہری پاور پلانٹس پر حملے عام ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ یوکرین میں جنگ ہے۔ دوسرا، ایجنسی کی عمومی کانفرنسوں کے دوران ان حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ جوہری تنصیبات پر حملہ سراسر قابل مذمت اور غیر قانونی ہے۔
گروسی نے کہا کہ انہوں نے ایرانی حکام کے ساتھ “تعمیری بات چیت” کی ہے جو کہ 2015 کے تاریخی معاہدے کی بحالی کی راہ ہموار کر سکتی ہے جس سے امریکہ کو تعمیل کی طرف واپس لایا جائے اور اسلامی جمہوریہ پر سے پابندیاں ہٹائی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ تعمیری بات چیت سے جو ہم ابھی کر رہے ہیں، اور اچھے معاہدوں کے ذریعے، مجھے یقین ہے کہ ہم اہم معاہدوں کی راہ ہموار کر رہے ہوں گے۔
تہران اور آئی اے ای اے کے درمیان تعلقات کے بارے میں گروسی نے کہا کہ یہ ضروری اور اہم ہے کہ ایران اور ایجنسی کے درمیان قریبی تعلقات ہوں اور یہ تعلقات جتنے زیادہ ایران کی طرف سے ہوں گے اتنا ہی دوسرے ان کے اثر و رسوخ میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے لیے مل کر کام کرنا ضروری ہے۔