اکتوبر 15, 2024

امریکہ کی مسلسل ناکامیاں مغرب سے مشرق اقتدار کی منتقلی کا سبب بنیں۔ جنرل قاآنی

سیاسیات- سپاہ پاسدارن انقلاب اسلامی کی قدس کے فورس سربراہ جنرل اسماعیل قاآنی نے “اعتلا” نامی قومی منصوبہ بندی کے افتتاح کے موقع پر یونیورسٹیز کی فکیلٹیز اور پروفیسرز سے خطاب کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کرنے والے بہت سے غنڈہ گرد عناصر آج یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ شہیدِ مقاومت کی طاقت اور زور اُن کے میزائل و ہتھیار تھے۔ حالانکہ جو لوگ اُن سے آشنا ہیں وہ اچھی طرح سے اس بات کو جانتے ہیں کہ شہید کا سب سے بڑا ہتھیار ان کی منظق و دلیل تھی۔ اس چیز کو جوانوں کے سامنے بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ قدس فورس کے سربراہ نے کہا شہید قاسم سلیمانی ہر محاذ پر منطق و دلیل کے ساتھ داخل ہوئے۔ اگر اُن کا مخالف فریق منطق کو قبول کر لیتا تو کوئی لڑائی ہی نہ تھی، لیکن چونکہ دشمن ضدی تھا اور حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں تھا اور سب پر حملہ آور رہنا چاہتا تھا۔ شہید قاسم سلیمانی نے ہمیں بتایا کہ اگر دشمن دلیل کو قبول نہ کرے اور طاقت کے زور پر تسلط چاہتا ہو تو اس صورت حال میں دشمن سے کیسے نمٹا جائے، دقیقاََ شہید کی یہی بات دشمن کے لئے ناقابل برداشت تھی۔

جنرل اسماعیل قاآنی نے فلسطینی مقاومت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی استقامتی بلاک نے بعض اوقات مغربی کنارے میں صیہونی دشمن پر ایک ہی دن میں تیس سے زائد حملے کئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خطہ اور زمین فلسطینی عوام کی ہے جسے اُن سے چھینا گیا ہے۔ ستر سال سے فلسطینیوں کی نسل کشی کی جارہی ہے اور ابھی بھی فلسطینیوں کی شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن وہ عزت و سربلندی کے ساتھ اپنے حقوق، سرزمین اور مطالبات کا دفاع کر رہے ہیں۔ انشااللہ خدا کی مدد سے بالآخر فلسطینیوں کو فتح نصیب ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے دفاع کے بارے میں سوچتے ہوئے دوسروں کے دفاع کی کوشش کرنی چاہئے۔ فرزندان فلسطین اس سے قبل کبھی بھی اتنے مضبوط اور طاقتور نہیں تھے جتنے آج ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل کو کبھی بھی اتنے چیلنجز درپیش نہیں تھے جتنے آج ہیں۔ انہوں نے اس امر کی وضاحت کی کہ فلسطینیوں نے عزت سے جینے اور مرنے کا سلیقہ انقلاب اسلامی سے سیکھا ہے۔ اپنے خطاب میں قدس فورس کے سربراہ نے سابق صیہونی وزیراعظم “نفتالی بینٹ” کے اپنی عوام کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیا۔

نفتالی بینٹ نے یہ خط گزشتہ سال “خاموش صہیونی عوام کے نام خط” کے عنوان سے لکھا تھا۔ جو 26 سے 27 صفحوں پر مشتمل ہے۔ اس خط میں سابق صیہونی وزیراعظم نے اسرائیل کو درپیش چھ سے 7 مشکلات کا ذکر کیا جن میں اقتصادی، عسکری، اخلاقی اور خواتین سمیت دیگر مسائل شامل تھے۔ اپنے خط کے آخر میں نفتالی بینٹ نے لکھا کہ یہودیوں نے اس سے قبل دو بار حکومت کی، پہلی بار 80 سال تک حکومت کی جس میں شدید اختلافات کی وجہ سے یہ حکومت ختم ہو گئی۔ جب کہ دوسری بار 75 سال حکومت کی اور اس میں بھی اختلافات بڑھنے کی وجہ سے یہودی حکومت کو ختم ہونا پڑا۔ انہوں نے اس امر کی جانب اشارہ کیا کہ حالیہ صیہونی حکومت کو درپیش مسائل تاریخ میں اس سے قبل مشاہدہ نہیں کئے گئے۔ قدس فورس کے سربراہ نے کہا کہ ہماری امریکہ و خونخوار صیہونی حکومت سے لڑائی کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے حقیقت پر مبنی راستے کا انتخاب کیا اور دوسروں کو بھی اسی راہ کی تعلیم دی۔ جب کہ اس کے مقابلے میں یہ استعماری ٹولہ دنیا میں جنگیں ایجاد کرتا ہے، اسلحہ بیچتا پے اور یونورسٹیز میں اس کی تعلیم دیتا ہے، یعنی ہر چیز اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔

جنرل اسماعیل قاآنی نے کہا کہ امریکہ نے حالیہ 20 سالوں میں اس خطے میں 7 ٹریلین ڈالر خرچ کئے۔ ان سارے اخراجات کے باوجود امریکہ کو نہ صرف کوئی فائدہ حاصل ہوا بلکہ ہر روز کوئی نہ کوئی نقصان ہی اُٹھانا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ پوری صیہونی مشینری جنین کیمپ پر ٹوٹ پڑی لیکن فلسطینیوں نے انہیں دندان شکن جواب دیا۔ قدس فورس کے سربراہ نے رہبر معظم کے اس فرمان کو بالکل حقیقت سے تعبیر کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل سے سمجھوتے کی قیمت مقاومت سے زیادہ ہو گی۔ جنرل اسماعیل قاآنی نے مقاومت کی خوبی بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ کے بھائی شام میں مقدس مقامات کے تحفظ کے لئے کھڑے ہو گئے، ایسے میں دشمنوں نے یورپ کے مختلف ملکوں میں میٹنگز کیں اور شام کے خلاف مکمل صف آرائی کر دی۔ لیکن آخر یہ ہوا کہ ایران کے صدر شام جاتے ہیں اور مقاومت کے منصوبے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ عرب لیگ میں شام کے خلاف محاذ آراء تھے وہی عناصر اس لیگ میں دمشق کی واپسی کے خواہاں تھے۔ انہوں نے کہا کہ آج مقاومت نے سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔

جانشین شہید مقاومت نے اس بات کی وضاحت کی کہ ہم نے استقامتی قوتوں کو جنگ کی بہترین حکمت عملی سکھائی۔ اگر انقلاب اسلامی کی ثقافت نہ ہوتی تو 11 ستمبر کے بعد امریکی اس دنیا کو نگل جاتے۔ آج مغرب سے ایشیاء میں اقتدار کی منتقلی کی گفتگو ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین اُن علاقوں میں بھی سیاسی طور پر گُھس چکا ہے جہاں وہ کبھی داخل بھی نہیں ہوا تھا اور وہ علاقے کبھی امریکیوں کے تھے۔ اقتدار کی منتقلی کی وجہ مختلف محاذ پر امریکہ کی پے در پے ناکامیاں ہیں۔ اگر امریکہ کو یہ ناکامیاں نہ ہوتیں تو امریکہ اسی طرح گُھمنڈی، مستکبر اور ضدی ہوتا۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو بتانا چاہئے کہ اس بنیادی تبدیلی کی موثر ترین وجہ انقلاب اسلامی ایران ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج انقلاب اسلامی خطے میں مقاومت کی درخشاں زندگی کا پرچم ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ علاقے میں فیصلہ کن پوزیشن پر ہے۔ آپ عراق کی صورتحال کا موازنہ کریں جب امریکہ نے عراق پر قبضہ کیا تو اس پر ایک ڈکٹیٹر مسلط تھا۔ کچھ عرصے بعد دباو کی بنا پر اس کی جگہ ایک سیاسی شخص کو لائے، لیکن آج عراق میں ایک پارلیمنٹ، حکومت اور نظام حاکم ہے۔ یہ سب کچھ انقلاب اسلامی اور مقاومت کی ثقافت کی مضبوطی کی وجہ سے ہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

6 + 10 =