دسمبر 30, 2024

2024 پٹرولیم پر امریکی بالادستی کے خاتمے کا سال ہو سکتا ہے

رضی طاہر کی تحقیقاتی رپورٹ

سال2023میں 20فیصد ایسے معائدے دیکھے گئے جس سے پٹروڈالر کو خطرے لاحق ہوا اور دنیا کی دیگر ممالک کی کرنسی کو اہمیت ملی، اب سال 2024کا آغاز ہے اور پٹروڈالر بالاستی کا امسال خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ہم نے عالمی حالات، واقعات، معائدات اور حال و مستقبل کا بغور جائزہ کیا تو محسوس کیا کہ اب دنیا کے نہ صرف فیصلے امریکہ سے نہیں ہورہے بلکہ تجارت بھی اب امریکی کرنسی کے چنگل سے آزاد ہورہی ہے۔ اگر ہم دیکھیں تو وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق تیل کی بڑی کمپنیاں اور قدرتی تیل کے برآمد کنندگان امریکی ڈالر کے بغیر بھی خرید و فروخت کررہے ہیں،تیل کے 20% حصص کی تجارت امریکی ڈالر کے علاوہ دیگر کرنسیوں میں ہو ئی،اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2023 میں، امریکی ڈالر کے علاوہ دیگر کرنسیوں میں 12 بڑے تجارتی سودے ہوئے،جبکہ 2022میں صرف 7سودے امریکی ڈالر کے بغیر ممکن ہوئے تھے۔اگر صرف20فیصد کے تناسب سے ہی امریکی ڈالر کے مقابلے میں دیگر کرنسی میں تجارت ہو تو 40فیصد تجارت امریکی ڈالر کے چنگل سے آزاد ہوگی، لیکن میں اس سے بہت زیادہ دیکھ رہا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ 2024میں کئی ایسے معائدات اور عالمی تبدیلیاں سامنے آئیں گی جس کے بعد پٹروڈالر کو ہم ماضی کا قصہ سمجھنا شروع ہوجائیں گی۔اس میں سب سے زیادہ اثراندازی برکس کی ہوگی جس میں اب کئی مزید ممالک شامل ہونے جارہے ہیں،امریکی مبصرین برکس کو پٹروڈالر کیلئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔

پٹروڈالر کیلئے خطرہ۔۔۔برکس

برکس ممالک میں برازیل، روس، ہندوستان، چین اور افریقہ شامل ہیں جو مجموعی طور پر 45فیصد تیل کے ذخائرکا کنٹرول رکھتے ہیں، برکس ممالک میں روس، ہندوستان اور چین نے سب سے پہلے پٹروڈالر سے بغاوت کی ہے، ہم ذیل میں ان معائدات کا ذکر کریں گے لیکن سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ برکس کا حجم بڑھنے والا ہے، اب برکس محض ان پانچ ممالک پر محیط نہیں ہوگا بلکہ سال2024کے آغاز میں دیگر ممالک میں برکس کا حصہ بنیں گے، بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب، ایران، ایتھوپیا، مصر، متحدہ عرب امارات جنوری 2024میں ہی برکس کا باقاعدہ حصہ بنیں گے، جبکہ 2جنوری کو اس رپورٹ کے عین مطابق ایران اور سعودی عرب برکس کا باقاعدہ حصہ بن چکے ہیں، یوں برکس ممالک دنیا کے80فیصد تیل کے ذخائر کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔ ارجنٹائن نے بھی برکس کا حصہ بننے سے پہلے آمادگی ظاہر کی لیکن بعدازاں انکاری ہوگیا، جبکہ پاکستان نے بھی برکس کا حصہ بننے کیلئے باقاعدہ درخواست دے رکھی ہے۔
برکس سے متعلق عالمی اداروں کی خبروں سے کچھ اقتباس پڑھیں گے تو آپ کو اس کی اہمیت کا انداز ہوگا۔

٭ الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برکس ممالک کی طاقت بڑھنے کا امکان ہے جو عالمی نظام کو ڈرامائی طور پر تبدیل کرکے
رکھ دے گا، برکس ایک عالمی نظام کے بجائے طاقت کو تقسیم کرنے کے فارمولے پر کام کررہا ہے۔ تاہم اس سے مغرب کے ساتھ تناو میں اضافہ ہوگا، دیکھنا یہ ہے کہ برکس اپنے ساتھ جڑے ہوئے ممالک کی ترجیحات اور مفادات کے تحفظ کے ساتھ اسے کیسے یقینی بناتا ہے۔(یہ رپورٹ22اگست2023میں شائع ہوئی ہے)
٭ اٹلانٹک کونسل کی ایک رپورٹ جس کو عنوان دیا گیا کہ ”آہستہ آہستہ کرکے برکس ملٹی پولر دنیا بنا رہا ہے“ میں کہا گیا کہ برکس ڈالر کا
دنیا سے غلبہ ختم کررہا ہے، برکس کا ایجنڈا ہے کہ دنیا کسی ایک طاقت کے ساتھ نہیں بلکہ طاقت کی تقسیم کے ساتھ بہتر انداز سے چل سکتی  ہے۔ طاقتوں کے مختلف مراکز بننے سے امریکی ڈالر کی حکمرانی کو شدید خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ یہی ایک وجہ ہے امریکہ اب عالمی پابندیوں میں نرمی لانے پر غور کررہا ہے تاکہ ڈالر کی گرتی ساکھ اور حکمرانی و بالادستی کو ختم ہونے سے روکا جاسکے۔ (یہ رپورٹ23اگست2023میں شائع ہوئی ہے)
٭ ایک اور نشریاتی ادارے واچر گرو نے11دسمبر 2023کو امریکی معاشی تجزیہ کاروں کے ریفرنس کے ساتھ لکھا کہ آنے والی برکس کرنسی بین الاقوامی منڈیوں میں امریکی ڈالر کو گرا سکتی ہے۔جب برکس کرنسی شروع کی جائے گی تو امریکی ڈالر کی موت واقع ہوجائے گی۔
٭ ٹائمر آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برکس گروپ اپنی رکنیت کو وسیع کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں اس کے اثر و رسوخ میں بیک وقت توسیع ہو رہی ہے۔ یہ گلوبل ساؤتھ کی نمائندہ آواز کے طور پر اپنی پوزیشن مستحکم کر رہا ہے۔ یکم جنوری 2024 کو پانچ بڑے ممالک ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور ایتھوپیا باضابطہ طور پر اس بلاک میں شامل ہوں گے۔ اس سے قبل، برکس میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل تھے۔ نومبر میں، پاکستان نے برکس گروپ میں رکنیت کے لیے باضابطہ طور پر درخواست دی۔ مزید برآں، دیگر ممالک جو بلاک میں شامل ہونے میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں ان میں نائیجیریا، ترکی، میکسیکو اور عراق شامل ہیں۔
٭ ُُٓٓپاکستانی ادارے ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ میں لکھا گیا کہ ”امریکہ کو خدشہ ہے کہ برکس کو حریف چین کی طرف سے عالمی نظام کو خطرے میں ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔برکس میں، امریکی حکمت عملی کے ماہرین اب گلوبل ساؤتھ کے ممکنہ حریف اتحاد کو دیکھتے ہیں جو عالمی نظام کو از سر نو تشکیل دینے اور دنیا میں مغربی جغرافیائی سیاسی مفادات کو خطرے میں ڈالنے کی خواہش سے متحرک ہے۔

٭ براون پولیٹکل ریووز نے ایک رپورٹ کو ”ڈالر کیلئے سیاہ دنوں“سے معنون کیا، جس میں انہوں نے لکھا کہ اگر سعودی عرب برکس میں شامل ہو جاتا ہے اور برکس کے زیر اہتمام نئی کرنسی میں تیل برآمد کرنا شروع کر دیتا ہے، تو عالمی کرنسی کے طور پر امریکی ڈالر کا کردار کمزور ہو جائے گا۔ 1970 کی دہائی کے معاہدے سے نصف صدی بعد، سعودی عرب پہلے کے مقابلے میں امریکہ پر بہت کم انحصار کرتا ہے۔ اگرچہ تیل کے معاہدے نے طویل عرصے سے سعودی عرب کو امریکی مفادات کے ساتھ جوڑ دیا ہے، حالیہ سفارتی تنازعات، جو صحافی جمال خاشقجی کے ہائی پروفائل قتل سے بڑھے ہیں، نے اس شراکت داری کو نقصان پہنچایا ہے۔ ریاستہائے متحدہ کے ساتھ تعلقات کی اس ٹھنڈک نے سعودی عرب کو دیگر عالمی شراکتیں تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے، یہاں تک کہ حال ہی میں چینی کرنسی، یوآن کے بدلے چین کو تیل فروخت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، جس سے پیٹرو ڈالر کی قدر میں زبردست تبدیلی آئی ہے۔
٭ تحقیقاتی ادارے فاربیز نے مختلف معائدوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ حالیہ مہینوں میں کیے گئے معاہدوں سے یہ قیاس آرائیاں ہوئی ہیں کہ جیسے جیسے تیل کی منڈیوں میں ترقی ہوتی جارہی ہے، پیٹرو ڈالر اپنا اثر کھورہا ہے۔(یہ رپورٹ2اپریل2023میں شائع ہوئی
٭ مارکیٹ انسائیڈر کی ایک رپورٹ میں وائٹ ہاؤس کے سابق ماہر اقتصادیات جو سلیوان کا حوالہ دے کر لکھا گیا کہ ڈالر کو BRICS ممالک کی طرف سے بڑھتے ہوئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، بلاک کے بڑھتے ہوئے سائز اور عالمی تجارت پر اثر و رسوخ کی بدولت پیٹروڈالر اثرو رسوخ ختم ہوجائے گا۔
٭ فارن پالیسی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ برکس ممالک بین الاقوامی تجارت میں امریکی ڈالر کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک کرنسی تشکیل دے سکتے ہیں۔ اس طرح کی کرنسی ممکنہ طور پر عالمی تجارتی منڈیوں کے اوپر اور غالب ریزرو کرنسی کے طور پر ڈالر کو گرا سکتی ہے۔

ڈالر کے بغیر عالمی تجارت کے معائدات

سال2023میں ایسے سینکڑوں آرٹیکلز اور رپورٹس سے یہ واضح ہے کہ امریکی اور مغربی مبصرین برکس کو امریکی ڈالر کی موت قرار دے رہے ہیں اور پٹرولیم پر امریکی بالادستی اور گرفت کے خاتمے کی نوید سنارہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے تجارتی ماہرین بھی اس جانب بغور دیکھ رہے ہیں، تاہم ایشیا کے میڈیا پر مغربی حکمرانی کی بدولت ابھی تک وہ یہ حقیقت ماننے سے انکاری ہیں کہ دنیا سے امریکی گرفت
کمزور ہوجائے گی۔ اب ہم عالمی معائدات پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں جس سے آپ کو یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ کیسے پیٹروڈالر بالادستی کا خاتمہ ہورہا ہے اور مستقبل میں کیا ہونے جارہا ہے۔
٭ 28 مارچ2023 کو، برازیل اور چین نے اپنی اپنی کرنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے مستقبل کے تمام تجارتی لین دین کے لیے ایک معاہدے کا اعلان کیا۔ چین برازیل کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
٭ 28 مارچ 2023کو فرانسیسی تیل کمپنی ٹوٹل انرجی نے اعلان کیا کہ اس نے چینی یوآن کو بطور کرنسی استعمال کرتے ہوئے چینی تیل کمپنی CNOOC سے مائع قدرتی گیس (LNG) کی اپنی پہلی خریداری مکمل کی۔
٭ اپریل 2023میں روسی سینیٹ میں دئیے گئے دستاویزات کے مطابق  بتایا گیا کہ روس اور چین کے درمیان 80 فیصد سے زیادہ تجارتی معائدے اب روسی روبل اور چینی یوآن میں کیے جاتے ہیں۔
٭ جون 2023میں پاکستانی نے روسی آئل کی کھیپ کی قیمت چینی یوآن میں ادا کی۔
٭ جولائی 2023میں بھارت نے متحدہ عرب امارات سے تجارت لوکل کرنسی میں کرنے پر اتفاق کیا۔ جبکہ دسمبر2023میں ہی بھارت نے تیل کی برآمدگی کی پہلی ادائیگی ڈالر کے بجائے روپے میں کی۔
٭ ستمبر2023میں سعودی عرب اور بھارت کے درمیان لوکل کرنسی میں تجارت کرنے کیلئے مذاکرات کا آغاز ہوا۔
٭ اکتوبر2023میں بھارت اور تنزانیہ کے درمیان لوکل کرنسی میں تجارت پر معائدہ طے پایا۔
٭ دسمبر2023میں ایران اور روس نے تجارت کو لوکل کرنسی میں کرنے پر اتفاق کیا، سال2024میں دونوں ممالک کی تجارت کا
آغاز لوکل کرنسی میں ہی ہوگا۔
٭ دسمبر2023میں ہی طے پایا کہ روس اور بھارت سال2024میں 40بلین ڈالر کی تجارت لوکل کرنسی میں سرانجام دیں گے۔
٭ پیپلز بینک آف چائنا اور سعودی سینٹرل بینک نے حال ہی میں 50 بلین یوآن ($6.93 بلین) یا 26 بلین سعودی ریال مالیت کے مقامی کرنسی کے تبادلے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

کچھ اہم قابل ذکر معائدات کے علاوہ بھی کئی ممالک اب لوکل کرنسی میں تجارت پر غور کررہے ہیں۔ جس وجہ سے ڈالر کے اثرو رسوخ میں واضح کمی ہوئی ہے اور میں یہ تجزیہ باآسانی پیش کرسکتا ہوں کہ ڈالر کی حکمرانی کے دن گنے جاچکے ہیں۔پٹرول کی دنیا میں سعودی عرب اور ایران مالامال ہیں لہذا دونوں کے تعلقات میں بہتری بھی بڑی تبدیلی لاسکتی ہے۔

ایران سعودی عرب تعلقات

ایران کے سعودی عرب سے تعلقات بہتر ہونا بھی امریکی مفاد کیلئے ایک بڑا دھچکا تھا، حال ہی میں دونوں ممالک کے درمیان روابط میں اضافہ دیکھنے کو ملا اور موقف میں نرمی دیکھنے کو ملی ہے۔ عالمی پابندیوں کا شکار ایران اس وقت ایشیا کے بڑے کھلاڑی کے طور پر ابھر کرسامنے آرہا ہے۔ حال ہی میں ایران نے عراق کے ساتھ اہم معائدہ کیا ہے جس میں ایران عراق میں آئل ریفائنریز لگانے میں عراقی حکومت کی معاونت کرے گا، اس معائدے سے بھی امریکی مفادات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے۔
حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ دنیا اب یونی پولر سے ملٹی پولر میں بدل رہی ہے۔دنیا میں طاقت کے ایک مرکز نے جہاں تباہی کی وہیں پر طاقت کے ایک مرکز نے انسانوں کا استحصال بھی جاری رکھا، عالمی مفادات کے پیش نظر لگائی گئی پابندیوں نے کئی ممالک کی معیشت کو روند ڈالا، امریکہ کے اپنے مفادات کی بھینٹ کئی ریاستیں اور ان کی عوام چڑھ گئی۔ یہی وجہ ہے دنیا نے اب سمجھنا شروع کردیا ہے۔ سال2024دنیا پر امریکی ڈالر کی حکمرانی کے خاتمے کا سال ہوسکتا ہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

sixteen + 17 =