تحریر: محمد حسنین امام
ظالم اور جابر افراد جب تخت حکومت پر بیٹھے ہوں تو وہ نہ کسی پر رحم کرتے ہیں اور نہ کسی قانون کی رعایت۔ آپ ؑ کے دور میں ایسے افراد حکومت پر قابض تھے جو نہ مقدسات دینی کے لئے احترام کے قائل تھے نہ اسلام کی عظمت کے ۔بلکہ کھلے عام دین اسلام کا مذاق اڑاتے تھے۔
امام حسین علیہ السلام کی تحریک نے دنیا کو الہیٰ سیاست کا سبق سکھایا آپ کبھی بھی معاشرے سے کٹ کر خانہ نشین نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ میدان سیاست اور سماج کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے رہے حکومت کے نہ ہونے کے باوجود آپ کئی گھرانوں کی کفالت کرتے، حاکم وقت وقت کے ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے حتی کہ آقا باقر شریف قرشی خوشبوئے حیات میں امام عالی مقام کی مکہ میں ایک سیاسی کانفرنس کے بارے میں راقم طراز ہیں۔
امام حسینؑ نے مکہ میں ایک سیاسی اور عمو می اجلاس منعقد کیا جس میں حج کے زمانہ میں آئے ہوئے تمام مہا جرین و انصار وغیرہ اور کثیرتعدادنے شرکت کی ،امام حسینؑ نے ان کے درمیان کھڑے ہوکر خطبہ دیا ، سرکش و باغی معاویہ کے زمانہ میں عترت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ڈھائے جانے والے مصائب و ظلم و ستم کے سلسلہ میں گفتگو فرمائی آپ کے خطبہ کے چند فقرے یہ ہیں:
”اس سرکش معانے ہمارے اور ہمارے شیعوں کے ساتھ وہ کام انجام دئے جس کو تم نے دیکھا ،جس سے تم آگاہ ہو اور شاہد ہو ،اب میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کر نا چا ہتا ہوں ، اگر میں نے سچ بات کہی تو میری تصدیق کرنا اور اگر جھوٹ کہا تو میری تکذیب کرنا ،میری بات سنو ، میرا قول لکھو ،پھر جب تم اپنے شہروں اور قبیلوں میں جاو تو لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور اس پر اعتماد کرے تو تم اس کو ہمارے حق کے سلسلہ میں جو کچھ جانتے ہواس سے آگاہ کرو اور اس کی طرف دعوت دومیں اس بات سے خوف کھاتا ہوں کہ اس امر کی تم کو تعلیم دی جائے اور یہ امر مغلوب ہو کر رہ جا ئے اور خدا وند عالم اپنے نور کو کا مل کر نے والا ہے چا ہے یہ بات کفار کو کتنی ہی نا گوار کیوں نہ ہو ”۔
امام ؑ اور آپ کے اصحاب نے ہمیشہ عزت و وقار کو پیش نظر رکھا۔ ذلیل انسانوں کے سامنے جھکنا گوارا نہیں کیا۔ امام ؑ سے جب والی مدینہ نے بیعت کا سوال کیا تو آپ نے اس فعل کو ذلت سے تعبیرکیا اورفرمایا کہ: ” لایبائع مثلی مثلہ” مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرے گا۔”(بحار الانوار ج ٤٤ص ٣٢٥)آپ نے میدان کربلا میں بیعت کے سوال پرارشاد فرمایا: ”لا اعطیکم بیدی اعطاء الذلیل ولا اقرّ اقرار العبید” میں ذلیل افراد کی طرح اپنا ہاتھ بیعت کے لئے تمہارے ہاتھ میں نہیں دوں گااور غلاموں کی طرح اقرار بیعت نہیں کروں گا۔
میدان کربلا میں روز عاشور آپ نے سپاہ شام کے سامنے فرمایا کہ :”الا ان الدعی وابن الدعی قد ترکنی بین السلۃ والذلۃ وھیھات منا الذلۃ ابی اللّٰہ ذالک لنا ورسولہ والمؤمنون وحجور طھرت جدود طابت ان یوثر طاعۃ اللأام علی مصارع الکرام”(احتجاج طبرسی ج٢ ص٢٤)آگاہ ہو جاؤ دعی ابن دعی نے مجھے موت اور ذلت کے درمیان کھڑا کر دیا ہے اور ذلت ہم سے کوسوں دور ہے ۔خدا اور اس کا رسول ؐ اور وہ پاک دامن جن میں ہم نے تربیت پائی ہے ،ہمیںاس فعل کی اجازت نہیں دیتے کہ ایک پست انسان کی اطاعت کریں ”
امام زین العابدین ؑ بھی اپنے بابا کی شہادت پر فخر کرتے ہوئے کوفہ کے لوگوں سے فرماتے ہیں کہ : ”انا ابن من قتل صبراً وکفانی بھذا فخراً”
)مصارع الشھداء ومقاتل السعداء ص ١٦٤)میں اس کا بیٹا ہوں جس کو شہید کیا گیااس حالت میں کہ وہ صبر کر تا رہا۔اور میرے لئے فخر کے لئے یہی کافی ہے ۔
آپ کی طرح ثانی زہراؑنے بھی عزت وقار کا مظاہرہ کیااور ظالموں کے ان اہانت آمیز رویوں کے سامنے آپ نے خندہ پیشانی سے انہیں شکست سے دوچار کیا۔ آپ ؑنے ظالموں کو ہر مقام پر خواہ وہ دربار یزید ہو یا دربار ابن زیاد ،بازار کوفہ ہو یا بازار شام دندان شکن جوابات دئیے اور صاحبان اقتدار کو ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔جب دربار ابن زیاد میں اہل حرم پہنچے تو ابن زیاد ،حضرت زینبؑ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
”الحمد للّہ الذی فضحکم وقتلکم واکذب احدوثتکم تعریف ہے اس خدا کی جس نے تمہیں رسوا کیا اور تمہیں قتل کیا اور تمہاری باتیں جھوٹی ثابت کردیں۔”(الارشاد ج٢ ص١١٥)
ابن زیاد نے یہ خیال باطل اپنے ذہن میں بٹھا رکھا تھا کہ یہ تو قیدی ہیں ،میں جو کچھ کہوں گا یہ لوگ خاموشی سے سنتے رہیں گے اور میں انہیں ذلیل کروں گا۔لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ علی ؑ کی بیٹی نے دندان شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا:”الحمد للّٰہ الذی اکرمنا بنبیہ محمد صلی اللّٰۃ علیہ وآلہ وطھرنا من الرجس تطھیراً، وانما یفتضح الفاسق ویکذب الفاجر وھو غیرنا والحمد للّٰہ ” تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے نبی محمد ؐ کے ذریعے کرامت بخشی اور ہمیں ہر رجس سے پاک وپاکیزہ رکھا۔ رسوا فاسق ہوتا ہے اور جھوٹ فاجر بولتا ہے ۔خدا کے فضل سے ہم ان میں سے نہیں ہیں۔)الارشاد ج٢ ص١١٥)اور دربار یزید میں بھی اسی قسم کے رویہ کا سامنا کرناپڑااور یزید اقتدار کے نشہ میں مست ہو کر کفر آمیز جملے ادا کرنے لگاکہ:لعبت بنو ہاشم بالملک فلا خبر جاء ولا وحی نزل لیت اشیاخی ببدر شھدوا جزع الخزرج من وقع الاسل لاھلوا واستھلوا فرحاً ولقالو یا یزید لا تشل فجزیناہ ببدر مثلاً اقمنا مثل بدر فاعتدل لست من خندف ان لم انتقم من بنی احمد ما کان فعل بنی ہاشم نے حکومت کے لئے کھیل کھیلا ، نہ کوئی خبر آئی اور نہ کوئی وحی اتری ، کاش میرے وہ بزرگان ہوتے جو بدر میں مارے گئے ہیں تو خزرج کی فریاد سنتے تلوار کے وار کی وجہ سے، وہ خوش ہوتے اور کہتے :اے یزید شاباش ۔ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا اور ہم نے ایک اور بدر قائم کردیا پس برابر ہو گئے۔ اگر میں آل احمد ؐسے ان کے کئے کا بدلہ نہ لوں تو میں خندف کی اولاد نہیں ہوں”(احتجاج طبرسی ج ٢ ص ٣٠٧،لھوف ص٢٤٤)
اس کے جواب میں حضرت زینب ؑ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:”اظننت یا یزید حین اخذت علینا اقطار الارض وآفاق السماء فاصبحنا نساق کما تساق الامائ۔ ان بنا ھوانا علی اللّٰہ وبک علیہ کرامۃ”(لہوف ص٢٤٤)”اے یزید کیا تو نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ اگر زمین اور آسمان کو ہم پر تنگ کر وگے اور ہمیں کنیزوں کی طرح اسیر کرو گے تو ہمیں خدا کے نزدیک ذلیل اور خود خدا کے پاس صاحب عزت بن جاؤ گے”۔یا یزید کد کیدک واسع سعیک ناصب جھدک فواللّٰہ لا تمحو ذکرنا ولا تمیت وحینا”اے یزید تم جو حیلہ اختیار کرنا چاہتے ہو اختیار کرلو اور جتنی کوشش کرنا چاہے کرلو ، خدا کی قسم تو ہمارا ذکر نہیں مٹا سکے گا اور وحی کو ختم نہیں کر سکے گا۔ (لہوف ص ٢٥٠)