تحریر: سید اعجاز اصغر
مسئلہ فلسطین کے ساتھ ہی بیت المقدس کا مسئلہ بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت اس مقدس شہر کو غصب کر لینے اور ہضم کر جانے اور شہر کے اسلامی آثار کو محو کر دینے کی گوناگوں صیہونی سازشیں چل رہی ہیں۔ اس شہر کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے۔ پورا بیت المقدس پورے فلسطین کا دارالحکومت ہے۔ مسلمان ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ دشمنوں کی ناپاک سازشیں عملی جامہ پہنیں، وہ ان سازشوں کا مقابلہ کریں گے۔ قائداعظم محمد علی جناح اور امام خمینی رحمتہ اللہ علیہم اجمعین ہی دو عظیم شخصیات ہیں جنہوں نے فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کو پورے عالم میں اجاگر کیا جس کے ثمرات عنقریب کامیابی کی صورت میں ہمکنار ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں،
حقیقت میں اس وقت مسلمانوں کی زندگی اور اسلامی علاقوں کا کوئی بھی مسئلہ اتنا بڑا اور اہم نہیں ہے جتنا کہ مسئلہ فلسطین ہے ، سال ہا سال سے رفتہ رفتہ مسلمانوں کو اس کا عادی بنا دیا گیا ہے کہ ان کے گھر کا ایک حصہ اغیار کے قبضے میں رہے۔ البتہ بات مسلمانوں کے گھروں کے ایک حصے پر غاصبانہ قبضے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اسی حصے کو مسلمانوں کی صفوں پر حملے کرنے اور ان کی خواہشات اور آرزؤں کو کچلنے کے لئے محاذ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور غیرت مندانہ سوچ کو پروان چڑھانے محمد علی جناح اور امام خمینی کا کردار نمایاں اہمیت کا حامل ہے،
ان دونوں اسلامی رہنماؤں کے نزدیک فلسطین کا مسئلہ سب سے اہم ہدف و مقصد ہے ، سرزمین فلسطین کو نجات دلانا ہے ، ۔ سرزمین فلسطین کا ایک بالشت حصہ بھی فلسطینیوں کے گھر کا ایک بالشت حصہ ہے۔ فلسطینی ریاست پر فلسطینی عوام اور مسلمانوں کی حکومت کے علاوہ کوئی بھی اقتدار غاصبانہ اقتدار ہوگا۔ بنابریں بنیادی بات وہی ہے جو امام خمینی نے فرمائی: اسرائیل کو نابود ہو جانا چاہئے فلسطین کے یہودی اگر اسلامی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں تو وہاں شوق سے زندگی گزاریں۔ یہودیوں سے دشمنی برتنے کی بات نہیں ہے۔ مسئلہ مسلمانوں کے گھروں پر غاصبانہ قبضے کا ہے۔
مسلمان عمائدین اور زعما اگر بڑی عالمی طاقتوں کے زیر اثر اور ان کے دباؤ میں نہ ہوتے ذاتی مفادات کو ترجیح نہ دیتے تو اس اہم مہم کو کامیاب کر سکتے تھے لیکن افسوس انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ افغانستان کے بارے میں امریکی پالیسی سازوں کے اصل پلان کے متعلق پورا عالم اسلام آگاہ ہے ، مگر ان کی بے حسی اور خود غرضی نے اسرائیل کے ظالم حکمرانوں کو فلسطینی مسلمانوں کو بے دردی سے کچلنے کا موقع فراہم کیا،
نیتن یاہو چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان اور سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو نیتن یاہو اسرائیل میں ایک ہیرو کا درجہ پالے گا اور ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات کا آگے بڑھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل 1948سے اس کوشش میں ہے کہ پاکستان اسے تسلیم کر لے لیکن نیتن یاہو کی کوششوں کا پس منظر بالکل مختلف ہے۔
نیتن یاہو نے 2015میں یہ شوشہ چھوڑا تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کی طرف سے یہودیوں کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کے ماسٹر مائنڈ مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی تھے۔
نیتن یاہو کے اس دعوے کو کئی اسرائیلی اہلِ فکر و دانش نے جھٹلا دیا لیکن اس دعوے کے فوراً بعد بی جے پی کے ایک حامی ہندوستانی دانشور اراوی نندن نیلاکندن نے یہ دعویٰ کر دیا کہ علامہ اقبال، قائداعظم محمد علی جناح اور مفتی امین الحسینی دراصل ہٹلر کی یہودی دشمن سوچ کے حامی تھے اور اسی لئے تحریک پاکستان میں بار بار فلسطین کا نام استعمال کیا گیا۔
اس ہندوستانی دانشور نے مفتی امین الحسینی کی قائداعظم اور لیاقت علی خان کے ساتھ تصاویر کو بھی خوب استعمال کیا لیکن وہ یہ بھول گیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے مسئلہ فلسطین کا ذکر دوسری جنگ عظیم کے دوران نہیں بلکہ پہلی جنگ عظیم کے دوران شروع کر دیا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ کلکتہ (30دسمبر تا یکم جنوری 1917) میں پہلی دفعہ بیت المقدس کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس اجلاس کی صدارت مولانا محمد علی جوہر کی تصویر سے کرائی گئی کیونکہ وہ جیل میں تھے۔
1918کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی میں اے کے فضل الحق کی صدارت میں مسلم لیگ نے بیت المقدس اور نجف اشرف پر برطانوی قبضے کی مذمت کی اور 23ویں سالانہ اجلاس (1933)منعقدہ دہلی میں اعلان بالفور کو بھی مسترد کر دیا گیا۔ اس دوران مولانا محمد علی جوہر کا لندن میں انتقال ہوگیا تو مفتی امین الحسینی نے انہیں بیت المقدس کے احاطے میں دفن کرایا۔ ان کی قبر پر ’’محمد علی الہندی‘‘ تحریر ہے۔
بعض اسرائیلی محققین کا دعویٰ ہے کہ محمد علی جناح کی طرف سے مفتی امین الحسینی کو خفیہ مالی امداد دی جاتی تھی لیکن آل انڈیا مسلم لیگ کے ریکارڈ کے مطابق فلسطین فنڈ خفیہ نہیں تھا بلکہ عام مسلمانوں سے چندہ جمع کرکے مفتی امین الحسینی کو فراہم کیا جاتا تھا۔
مفتی صاحب اور قائداعظم کے درمیان خط و کتابت قائداعظم کی دستاویزات میں موجود ہے۔ کچھ بھی خفیہ نہیں، امریکی سی آئی اے کی ایک ڈی کلاسیفائڈ رپورٹ کے مطابق مفتی امین الحسینی 1951میں پاکستان آئے تو انہوں نے نا صرف آزاد کشمیر کے اوڑی سیکٹر جاکر تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کی بلکہ وہ کابل بھی گئے اور پاک افغان دوستی کیلئے بھی کوشش کی۔
حکومت پاکستان مفتی صاحب کو وانا بھی لیکر گئی جہاں انہوں نے وزیرستان کے قبائلی عمائدین سے کہا کہ وہ مملکت پاکستان کو مضبوط بنائیں۔ برطانوی حکومت نے مفتی صاحب کو وار کریمنل ڈیکلیئر کر رکھا تھا اور برطانیہ کو مطلوب یہ شخص حکومت پاکستان کا مہمان بن گیا۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد مفتی صاحب پاکستان نہیں آئے لیکن برطانیہ کو مطلوب رہنے والے اس فلسطینی عالم کو نیتن یاہو آج بھی کوستا ہے۔
اس فلسطینی عالم کے ساتھ تحریک پاکستان کی قیادت کا تعلق ان سب کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ ہے جو علامہ اقبال اور قائداعظم کو انگریزوں کا ساتھی قرار دیتے ہیں اور آج کل پاکستان اور اسرائیل کی دوستی کے لئے ہلکان ہو رہے ہیں۔
مسئلہ فلسطین حل کئے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب پاکستان کے مفادات کا نہیں نیتن یاہو اور امریکہ کے مفادات کا تحفظ ہے، لہٰذا سابق وزیراعظم عمران خان سے لاکھ اختلاف کریں لیکن اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے وہ قائداعظم کے راستے پر چل رہے ہیں وہ خیال رکھیں کہ میڈیا کی آزادی کا تحفظ بھی قائداعظم کا راستہ ہے، آج کل میڈیا کے توسط سے عوام کو دن بدن بیداری کا موقع مل رہا ہے، جو بھی عمران خان کو اسرائیلی ایجنٹ قرار دیتا ہے یا یہودی ایجنٹ قرار دیتا ہے تو وہ 1947 سے قبل دقیانوسی کی عکاسی کررہا ہے، عمران خان درحقیقت قائداعظم محمد علی جناح کے وژن کو آگے لے کر جا رہا ہے، دشمن اسلام عمران خان کو آج کا قائداعظم محمد علی جناح سمجھتا ہے، مسئلہ فلسطین، کشمیر اور اسلام فوبیا کے حوالے سے عمران خان نے اپنے مخلصانہ نظریات کو واضح کردیا ہے اور آزادانہ خارجہ پالیسی کے تحت پوری دنیا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی پائیدار کوشش کی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور اسلام کے دشمن عمران خان سے خائف ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اگر عمران خان کامیاب حکمرانی کرگیا تو نہ صرف فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ حل جائے گا بلکہ عالم اسلام میں اتحاد اور یکجہتی کا بول بالا ہو جائے گا جس کی مثال حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور ایران کے مابین تعلقات کی بحالی اور اختلافات کا خاتمہ دراصل عمران خان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے،
نوٹ: سیاسیات کا کسی بھی خبر اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں. اگر آپ بھی Siasiyat.com پر اپنا کالم، بلاگ، مضمون یا کوئی خبر شائع کرانا چاہتے ہیں تو ہمارے آفیشیل ای میل [email protected] پر براہ راست ای میل کر سکتے ہیں۔