دسمبر 22, 2024

شام میں تکفیری فتنہ پھر سر اٹھانے لگا

تحریر: علی احمدی

بدھ 27 نومبر 2024ء کے دن ایک طرف لبنان اور غاصب صیہونی رژیم میں جنگ بندی کا اعلان ہو تو دوسری طرف شام میں تکفیری دہشت گرد گروہوں نے حلب پر بڑے حملے کا اعلان کر دیا۔ یہ دہشت گرد گروہ ترکی کی سرحد سے ملحقہ شام کے صوبے ادلب میں موجود ہیں۔ تکفیری دہشت گرد گروہ تحریر الشام اس فتنے میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے جبکہ اسے دیگر تکفیری گروہوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یاد رہے یہ تمام تکفیری گروہ 2016ء میں حلب شہر کی آزادی کے بعد شام حکومت سے جنگ بندی معاہدے کے تحت صوبہ ادلب میں رہائش پذیر ہیں اور اب انہوں نے کھل کر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی شروع کر دی ہے۔ تحریر الشام اس وقت شام کے شمال میں سب سے بڑا تکفیری دہشت گرد گروہ بن چکا ہے اور حالیہ فتنے میں جو دیگر تکفیری گروہ اس کا ساتھ دے رہے ہیں ان میں صقور الشام، جیش الشمال، حزب اسلامی ترکستان، اجناد قوقاز، کتیبہ الرحمان اور جیش العزہ شام ہیں۔

تکفیری دہشت گرد گروہ تحریر الشام نے چند ماہ پہلے سے حلب شہر کے مضافات میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ مقامی اور خطے کے ذرائع ابلاغ اب تک ان مضافاتی علاقوں میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی موجودگی اور فعالیت کے بارے میں متعدد رپورٹیں شائع کر چکے ہیں۔ انہی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی وجہ سے شام آرمی نے بھی تقریباً ایک ماہ پہلے اپنی فوج کا کچھ حصہ حلب شہر کے شمالی اور مغربی حصوں میں تعینات کر دیا ہے۔ سب سے اہم بات ان تکفیری دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کا خطے سے متعلق امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہونا ہے۔ جب 2011ء میں پہلی بار شام میں تکفیری فتنے کا آغاز ہوا تھا تب بھی ان تکفیری عناصر کو غاصب صیہونی رژیم کی خاص حمایت حاصل تھی اور مختلف ذرائع ابلاغ میں حتی مقبوضہ فلسطین کے اسپتالوں میں زخمی تکفیری دہشت گردوں کے علاج معالجے کی تصاویر بھی شائع ہو چکی ہیں۔

گذشتہ ایک ماہ سے شام اپنے اتحادی ملک روس کے تعاون سے حلب کے اردگرد تکفیری دہشت گرد عناصر کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تکفیری دہشت گرد گروہ تحریر الشام دراصل شام مین سرگرم دہشت گرد گروہ القاعدہ کی ترقی یافتہ شکل ہے جس نے شام میں تکفیری فتنے کے آغاز کے بعد اپنا نام تبدیل کر کے “النصرہ فرنٹ” یا جبھہ النصرہ رکھ لیا تھا۔ اس کے بعد دیگر کئی تکفیری دہشت گرد گروہ بھی اس سے ملحق ہو گئے اور انہوں نے “ھیئت تحریر الشام” کا نیا نام چن لیا۔ نام کی تبدیلی کا اصل مقصد خود کو القاعدہ جیسے لیبل سے بچانا تھا جو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر شدید بدنام ہو چکا تھا۔ تحریر الشام کا سربراہ محمد الجولانی ہے جو اس وقت ترکی کی سرحد کے ساتھ ملحقہ شام کے شمالی صوبے ادلب میں رہائش پذیر ہے۔

گذشتہ برس 17 اکتوبر کے دن فلسطین میں اسلامی مزاحمتی تنظیم حماس نے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف بے مثال اور کامیاب طوفان الاقصی آپریشن انجام دیا جس کے ردعمل میں صیہونی رژیم نے غزہ پر فوجی چڑھائی کر دی اور فلسطینیوں کی نسل کشی کا آغاز کر دیا۔ طوفان الاقصی کے آغاز سے ہی لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ نے بھی غزہ میں اہلسنت فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطین کے شمال میں صیہونی رژیم کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا تھا۔ ایسے حالات میں تکفیری دہشت گرد گروہ تحریر الشام نے حلب پر دوبارہ قبضے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔ اس کی نظر میں حزب اللہ لبنان کی توجہ فلسطین پر مرکوز ہو چکی تھی لہذا وہ سمجھنے لگے کہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے انہیں سنہری موقع ہاتھ آ چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں اسلام دشمن طاقتوں جیسے امریکہ اور صیہونی رژیم کی طرف سے بھی سبز جھنڈی دکھا دی گئی۔

تقریباً ایک سال پہلے شام حکومت اور ترکی کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا تھا جن کا مقصد دہشت گرد گروہوں کی حمایت ختم کرنا تھا۔ اس وقت بھی تحریر الشام ان مذاکرات کا سب سے بڑا مخالف بن کر سامنے آیا تھا۔ ترکی اور شام میں مذاکرات روس کی ثالثی میں انجام پا رہے تھے۔ گذشتہ تقریباً 6 ماہ سے اگرچہ ادلب اور حلب کے مضافاتی علاقوں میں شام فوج اور تکفیری دہشت گردوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں لیکن حلب شہر مکمل طور پر پرامن تھا اور اس بدامنی سے بچا ہوا تھا۔ تحریر الشام کی سربراہی میں تکفیری دہشت گرد گروہوں کا دوبارہ سرگرم ہو جانا امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کے مفادات کے عین مطابق ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت کا ایک حصہ شام میں تکفیری فتنے کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہو جائے گا۔

گذشتہ چند ماہ کے دوران شام کے شمالی صوبے ادلب میں موجود ان تکفیری دہشت گرد عناصر کو یوکرین فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیز کی حمایت بھی حاصل ہو چکی ہے۔ چونکہ روس شام کا اتحادی ملک ہے لہذا یوکرین شام میں موجود حکومت مخالف تکفیری دہشت گرد عناصر کے ذریعے روس اور شام آرمی کو دھچکہ پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ شام کے تکفیری دہشت گرد عناصر یوکرین جنگ میں بھی شامل ہو چکے ہیں جبکہ یوکرین فوج شام میں تکفیری دہشت گردوں کی تکنیکی مدد کرنے میں مصروف ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک سے آئے تکفیری دہشت گردوں کی تعداد میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ شام میں سرگرم تکفیری گروہ حزب اسلامی ترکستان میں سرگرم عناصر کا تعلق چین کے علاقے ایغور سے ہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

fourteen − 14 =