دسمبر 21, 2024

اٹک: سیون سسٹرز کے نام سے مشہور انگریز دور کی سرنگیں

تحریر: محمد جنید خان

پنجاب کے ضلع اٹک میں انگریز دور میں بنائے گئے ریلوے ٹریک پر سات سرنگیں اس دور کی اعلیٰ تعمیر کا شاہکار مانی جاتی ہیں جو ’سیون سسٹرز‘ کے نام سے مشہور ہیں۔

پاکستان کے صوبے پنجاب میں واقع شہر اٹک ایک پہچان رکھتا ہے، اس کا پرانا نام کیمبل پور تھا۔ انگریزوں نے جب یہاں ریلوے کی پٹری بچھائی تو راستے میں کئی پہاڑ کاٹ کر سرنگیں بھی بنائی گئیں جہاں سے ٹرین آج بھی گزرتی ہے۔

اٹک کے علاقے جھلار سٹیشن کے قریب کالا چٹا پہاڑ کے دامن میں سازو سامان اور ٹرین کی نقل و حرکت کے لیے انگریزوں نے یہ پٹری بچھائی۔

کالا چٹا پہاڑ کے درمیان سے ٹرین گزارنے کے لیے انہیں سات سرنگیں بنانی پڑیں جو فن تعمیر کا اعلیٰ شاہکار ہونے کے ساتھ ساتھ اب بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں بلکہ ان ریلوے لائینوں پر سے ٹرینیں اب بھی گزر رہی ہیں۔ اس ٹریک پر ملتان، پشاور اور کراچی جانے والی ٹرینیں بھی گزرتی ہیں۔

کالا چٹا کے اس پہاڑی سلسلے میں بنائی گئی سرنگوں کی تعداد سات ہے۔ سات کے عدد کی وجہ سے انہیں سیون سسٹرز یعنی سات بہنیں بھی کہا جاتا ہے۔

ماڑی انڈس سے اٹک کے درمیان کئی سٹیشن گزرنے کے بعد ضلع اٹک کے ایک ویران سٹیشن جھلار سے تقریباً 300 میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد یہ سرنگیں شروع ہو جاتی ہیں۔

پاکستان ریلوے حکام سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق یہ سات سرنگیں پانچ کلو میٹر کے درمیانی فاصلے پر پھیلی ہوئی ہیں جس میں سرنگوں کی مجموعی لمبائی 9046 فٹ یا تقریباً تین کلو میٹر ہے۔

یہ سرنگیں بالترتیب 892 فٹ، 1180 فٹ، 855 فٹ، 1776فٹ، 1131فٹ، 1616فٹ لمبی ہیں جبکہ ساتویں سرنگ کی لمبائی 1596 فٹ ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ تیسری اور ساتویں سرنگ میں پانی کے قدرتی چشمے مسلسل رواں ہیں اور پانی کنارے کے ساتھ بہتا ہوا باہر کی جانب آتا ہے۔

پاکستان ریلوے سے ریٹائرڈ ہیڈ کلرک محمد اکرم قریشی نے بتایا کہ ان سرنگوں کی تعمیر سال 1897 میں انگریز دور میں مکمل ہوئی۔

محمد اکرم قریشی نے بتایا کہ’ بر صغیر میں اس وقت برطانیہ کی حکومت تھی۔ حکومت برطانیہ نے ریلوے لائن پاس کرنے کے لیے 1897 میں ان کی تعمیر کی۔ جھلار سٹیشن سے لے کر اٹک تک یہ سات سرنگیں ہیں۔

’ان علاقوں میں بجلی کی لائن موجود نہیں ہے اور روشنی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس لیے مقامی طور پر وہاں جو کام کرنے والے مزدور ہیں وہ آئینے سے کام لیتے ہیں اور سورج کی روشنی کو شیشے سے منعکس کر کے ان سرنگوں کے اندر پھینکا جاتا ہے اور وہاں مزدور کام کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’ان سرنگوں کی تعمیر کے دوران کافی مزدور وفات پا گئے تھے جن کی قبریں آج بھی وہاں موجود ہیں۔ عالمی سطح پر ان سرنگوں کو ایک بہترین شاہ کار گنا جاتا ہے۔ اس زمانے کی انجینیئرنگ کے مطابق یہ ایک بہترین نمونہ ہے۔‘

اکرم قریشی کہتے ہیں کہ اگر حکومت یہاں سڑک بنوا کر ان سرنگوں کو سیاحت کے لیے بھی استعمال کرے تو یہاں اندرون اور بیرون ملک سے سیاح آئیں گے بلکہ حکومتی آمدن میں بھی اضافہ ممکن ہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

sixteen − sixteen =