دسمبر 21, 2024

ارمانی کی کہانی

تحریر : عصمت اللہ شاہ مشوانی

میں ایک ایسے شخص کا ذکر انتہائی افسوس کے ساتھ کرنا چاہوں گا کہ اُس شخص کی اس کی زندگی میں کسی نے قدر نہیں کی وہ ایک قابل قدر انسان تھے وہ ایک استاد تھے وہ ایک ادیب تھے وہ ایک شاعر تھے وہ ایک صحافی تھے وہ ایک انقلابی تھے وہ اپنے قبیلے کا بہت ہی بڑا سرمایہ تھا جنہوں نے کچھ ہی عرصے میں زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنا نام بنایا۔ اپنی پوری زندگی میں کسی دوسرے انسان کو تکلیف پہنچنے نہیں دیا چاہے وہ اپنی زبان سے ہو یا اپنے کام سے وہ قابل قدر شخص ایک معزز گھرانے اور ایک معزز قبیلے سے تعلق رکھتے تھے دین اسلام کے دائرے میں اپنی زندگی بسر کرنے میں خوش تھے۔ میں جس شخص کا ذکر کر رہا ہو ان کا نام ملک محمد رمضان مشوانی بن ملک محمد یوسف مشوانی تھا ادب اور صحافت کہ دنیا میں آتے ہی انہوں نے اپنے لئے ایک نام چن لیا جوکہ *ارمانی* تھا۔ ارمانی کی زندگی پہ مختصراً تفصیلات آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا ضروری سمجھوں گا ارمانی کی تاریخ ولادت 16 جولائی 1982 تھی اسلامی مہنیے کے 21 رمضان المبارک کو کلی چچے زئی سب تحصیل پنجپائی ضلع کوئٹہ میں پیدا ہوئے آپ نے ابتدائی تعلیم کا آغاز کوئٹہ کے کلی فقیر آباد سے کیا اس کے بعد میٹرک کوئٹہ کے سنڈیمن ہائی اسکول سے کیا ، ایف ایس سی کی تعلیم ڈگری کالج کوئٹہ سے لی ، بی اے (پرائیوٹ) کیا اور اپنے تعلیم کی آخری ڈگری ایم اے (پشتو) میں حاصل کی وہ اکثر مجھ سے کہا کرتے تھے کہ غربت کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم پوری نہ کر سکیں اسی لیے وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار کی تلاش بھی کیا کرتے تھے انہوں نے شروع میں مختلف اخبارات جن میں روزنامہ طالب ، روزنامہ قدرت اردو/ پشتو ، روزنامہ دنیا ، روزنامہ ځلاند پشتو ، سہار رسالہ پشتو پنجپائی ژغ کے نام سے کام کیا وہ پشتو زبان اور پشتون قوم پہ مر مٹنے والے انسان تھے جیساکہ انہوں نے اپنے قلم سے کالم نگاری کی شکل میں کافی تحریر لکھے ہے وہ اپنے کالم محمد رمضان مشوانی اور محمد افغان مشوانی کے نام سے لکھتے تھے۔ ارمانی پشتو زبان کے ایک بہترین شاعر تھے تو آپ نے اپنی زندگی میں اپنی شاعری کی ایک کتاب لکھی جس کا نام *تنکی ارمانونہ* ہے ان کی شاعری کی ایک اور کتاب بغیر چاپ پڑی ہے۔ وہ اکثر اپنی شاعری میں پشتون وطن کا ذکر کیا کرتے تھے۔ جیساکہ ان کا ایک انقلابی پشتو شعر عرض ہے۔

چي چیرته ولاړشم ناقراره یمه

دادپښتون اوپښتونخوااثردی

په خپله خاوره چي تل ننګ کوینه

په هرپښتون دپښتونخوااثردی۔

ارمانی ایک انقلابی سوچ رکھنے والے شخصیت تھے جہاں بھی کسی لاچار ، غریب سے ناجائز ہوتا تو وہ اس لاچار شخص کی آواز بنتے اسی لیے ارمانی نے کئی تنظیموں کی رہنمائی بھی کی جن میں وہ یونین آف جرنلسٹ کے بانی رہے 2009 میں نادرا میں ملازمت اختیار کی اور نادرا ایمپلائز یونین میں بطورِ اطلاعات سیکرٹری فحال کردار ادا کرتے رہے ارمانی نادرا ایمپلائز یونین کے بانی رہنماؤں میں سے تھے۔ وہ اپنے قبیلے سید مشوانی کے فلاحی تنظیموں جن میں مشوانی یوتھ فاؤنڈیشن ، مشوانی ٹرائیبل یونین (مشوانی قومی تڑون) ، مشوانی ویلفیئر آرگنائزیشن اور مشوانی یوتھ فورم میں بانی رہنماء کے طور پر بہت اہم کردار ادا کئے۔ ارمانی کی ایک اچھی خوبی جو مجھے انتہائی پسند تھی وہ یہ کہ ارمانی ہمیشہ تاریخ کے حوالے سے مستند کتابوں کا حوالہ دیا کرتے تھے کبھی بھی سنی سنائی باتوں پہ انحصار نہیں کرتے تھے۔ ارمانی نے 1996 میں پشتونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے اپنے سیاست کا آغاز کیا آپ ایک فحال سیاسی کارکن رہے کوئٹہ کے سریاب علاقائی یونٹ میں بطور سیکرٹری اطلاعات اہم کردار ادا کیا 25 سال ایک ہی پارٹی کے ساتھ منسلک رہا آپ نے اپنی زندگی میں کسی دوسری پارٹی میں جانے کا سوچا بھی نہیں کیونکہ ان کو دنیائی دولت کی کوئی لالچ نہیں تھی وہ اپنے قوم اور اپنے وطن سے بہت محبت کرتے تھے۔ اسی وجہ سے تو شروع میں میں نے کہا ہے کہ ایک قابل قدر انسان کی دنیا میں کسی نے قدر نہیں کی چائے ان کا اپنا قبیلہ ہو چائے ان کی سیاسی پارٹی ہو قدر اِس وجہ سے نہیں کی کیونکہ ارمانی مطلبی و لالچی انسان نہیں تھے آج کل تو دنیا کا ایک دستور بنا ہے جو مطلبی و لالچی ہوگا دنیا اس کے ساتھ ہوگی مخلص اور سچے انسان کی یہ دنیا قدر نہیں کرتی۔ ارمانی کمر میں تکلیف کی وجہ سے 2015 سے بیماری میں مبتلا ہوئے کوئٹہ اور کراچی کے مختلف ہسپتالوں سے علاج کروایا 8 اکتوبر 2020 کو کوئٹہ کے ایک نجی ہسپتال میں کمر کا آپریشن کیا جو بعد میں جان لیوا ثابت ہوا 23 اکتوبر 2020 کی صبح 5 بجکر 55 منٹ پہ خالق حقیقی سے جاملے ارمانی چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا ارمانی نے دنیائے فانی میں صرف 39 سال کا سفر گزارا ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت ارمانی کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ۔ فانی دنیا اور اپنی جوانی پر ناز کرنے والوں کے لیے ملک محمد رمضان مشوانی (ارمانی) کا ایک پشتو شعر

د ورور ولي خبری اوکړي تاسو

بيا به هیڅوک نه په ژړا تیریږي

نازیږ مه په خپل زوانئ باندي ته

اې ارماني زوانی هم ستا تیریږي

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

10 − 7 =