دسمبر 29, 2024

اسرائیل قابض قوت ہونے کی وجہ سے اپنے دفاع کے حق کا دعوی نہیں کرسکتا۔ پاکستان

سیاسیات- اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے نے کہا ہے کہ اسرائیل قابض قوت ہونے کی وجہ سے اپنے دفاع کے حق کا دعوی نہیں کرسکتا ہے۔

عرب نیوز کے حالات حاضرہ کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں بات کرتے ہوئے سینیئر سفارت کار منیر اکرم نے کہا کہ ’یہ بالکل وہی ہے جو ہم نے سلامتی کونسل میں کہا ہے۔ اگر آپ پہلا بیان دیکھیں جو پاکستان نے اس پر دیا تھا، جب یہ تنازعہ شروع ہوا تھا، جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ایک طاقت جو دوسرے لوگوں پر قابض ہے، وہ ان لوگوں کے خلاف اپنے دفاع کے حق کا دعویٰ نہیں کر سکتی جن پر وہ قابض ہے۔‘.

انہوں نے فلسطین کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانچیسکا البانیز کے نقطہ نظر کی بھی تائید کی جنہوں نے گذشتہ ہفتے اسی شو میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ دفاع کا حق کسی ایسے ملک پر لاگو نہیں ہوتا جو ایک ہی وقت میں قابض طاقت ہو۔

’میرے خیال میں اس پر قانون بالکل واضح ہے۔ اسرائیل اور اس کے دوستوں کا مطالبہ اور دعویٰ کہ اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اس کا اطلاق نہیں ہوتا، اس صورت حال میں قانونی طور پر وہ قابل دفاع نہیں ہے۔‘

حماس دہشت گرد ہے یا نہیں؟

کیٹی جینسن کے ایک سوال کے جواب میں کہ آپ نے کہا تھا کہ جو فلسطینی قبضے میں رہ رہے ہیں ان پر دہشت گردی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا تو کیا یہ بات حماس پر بھی لاگو ہوتی ہے؟ منیر اکرم نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے حماس کو دہشت گرد تنظیم نامزد نہیں کیا گیا ہے۔

ضمنی سوال پر کہ بہت سے ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم کہہ چکے ہیں، انہوں کہا کہ ’وہ اسرائیل کے دوست ہیں اس لیے وہ حماس کو دہشت گرد تنظیم کہہ سکتے ہیں۔ لیکن جہاں تک ہماری (پاکستان کی) بات ہے ہم بین الاقوامی تعریفوں اور بین الاقوامی طور پر تسلیم کیے جانے کو ہی مانتے ہیں۔ اب تک حماس کو دہشت گرد تنظیم نامزد نہیں کیا گیا۔

’سکیورٹی کونسل کی جانب سے بھی حماس کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں نہیں ہے۔ میرے خیال میں یہاں پر صورت حال کچھ مختلف ہے اس لیے ہم اتنا سخت موقف نہیں اپنائیں گے۔ ہم کہیں گے کہ یہ عسکری تنظیم ہے۔

’یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو فلسطینیوں کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ لیکن اب تک بین الاقوامی برادری نے حماس کو دہشت گرد تنظیم نامزد نہیں کیا۔ یہ ایک حقیقت ہے۔‘

کیا پاکستان امن فوج کا حصہ بن سکتا ہے؟

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا پاکستان عسکری طور پر یعنی غزہ میں امن فوج بھیجنے کے لیے رضامند ہوگا، منیر اکرم نے – جنہوں نے 2019 میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفارتی مشن کے سربراہ کے طور پر اپنا دوسرا دور شروع کیا – کہا کہ انہیں امید ہے کہ ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوگی۔

’ہم اس تنازعہ میں فوجی طور پر شامل نہیں ہونا چاہیں گے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے بارے میں بات کرنا بھی خطرناک ہے۔ ہم ایک پرامن حل دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ہم کام کر رہے ہیں۔‘

منیر اکرم نے کہا کہ ان کے خیال میں اس بات کا انحصار مذاکرات پر ہو گا۔ ’میرا سوال ہو گا کہ کیا اسرائیل پاکستانی فوج کو قبول کرنے پر آمادہ ہو گا؟ اس لیے ہمیں بات چیت کرنی پڑے گی کہ امن فوج کن ممالک پر مشتمل ہوگی۔ لیکن یقینی طور پر ایک غیر جانبدار فوج اور ایسی فوج جو دونوں اطراف (اسرائیل اور غزہ) کے درمیان بفر بن سکے استعمال کی جا سکتی ہے۔

اسرائیل کی طرف سے پاکستانی فوج کی تعیناتی پر رضامندی کے ضمنی سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی امن فوج کے لیے دو لاکھ 30 ہزار فوجی بھیجے ہیں جو امن مشنز پر گذشتہ 40 سال میں بھجوائے گئے ہیں۔

’ہم اقوام متحدہ کے امن مشنز کے لیے سب سے زیادہ فوج بھجوانے والوں میں شامل ہیں۔ اس سیاق سباق کے ساتھ یقینی طور پر پاکستان راضی ہو گا اگر اس میں فریقین کی رضامندی بھی شامل ہو۔‘

’اصل گناہ‘

منیر اے اکرم نے دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا کہ غزہ کے تنازعے میں ’اصل گناہ‘ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے نہیں تھے بلکہ فلسطینی اراضی پر جاری اسرائیلی قبضہ تھا۔

اکرم نے زور دے کر کہا کہ اگرچہ بین الاقوامی انسانی قانون عام شہریوں کو نشانہ بنانے اور قتل کرنے کی ممانعت کرتا ہے، ’آج یہ بغیر کسی پکڑ دھکڑ کے ہو رہا ہے اور بعض طاقتیں جنگ بندی پر راضی نہیں ہو رہی ہیں۔ یہ سر چکرانے والا معاملہ ہے۔ یہ سب سے زیادہ پرتشدد طریقے سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ بین الاقوامی برادری کو ان اصولوں کے لیے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے جن کی ہم سب یہاں اقوام متحدہ میں حمایت کرتے ہیں۔‘

غزہ میں جنگ بندی کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے، منیر منیر اکرم نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کے مرکز اور بین الاقوامی قانون کے اطلاق میں عدم توازن کو دور کرے۔

انہوں نے ’فرینکلی سپیکنگ‘ کی میزبان کیٹی جینسن کو بتایا کہ ’یہ اصول سب پر یکساں اور عالمگیر طور پر لاگو ہونے چاہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بدقسمتی سے اسرائیلیوں میں یہ استثنیٰ کا احساس ہے کہ وہ جا کر لوگوں کو قتل اور پھر اس سے فرار ہو سکتے ہیں۔ اور پھر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ جب دوسرے ایسا کرتے ہیں ایسا کرتے ہیں جیسا کہ حماس نے کیا تو وہ دہشت گرد ہیں۔

’یہ دوہرا معیار آج ہمارے بین الاقوامی نظام کی کمزوری کی بنیادی وجہ ہے۔ اور اس کی اصلاح کرنی ہے۔ لوگوں کو انصاف چاہیے۔ لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کی ضرورت ہے یکساں قوانین کی بنیاد پر، وہی اصول جن کی ہم سب حمایت کرتے ہیں۔‘

پاکستان کے سینیئر سفارت کار منیر اکرم کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب غزہ میں اسرائیل کی بمباری سے مرنے والوں کی تعداد نو ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، جن میں کم از کم ساڑھے تین ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ بعض حکام کے مطابق ہر غزہ میں ہر 10 سیکنڈ میں ایک بچہ ہلاک ہو رہا ہے۔

تجربہ کار پاکستانی سفارت کار نے بار بار جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور ساتھ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غزہ تک رسائی کے لیے راہداری کھولنے کی بھی ضرورت پر زور دیا۔

’یہ واضح ہے کہ جو ہونے کی ضرورت ہے وہ جنگ بندی ہے۔ ہمیں دشمنی کو روکنے، فضائی بمباری، غزہ پر حملے اور جو ہلاکتیں ہو رہی ہیں انہیں روکنے کی ضرورت ہے۔یہ کسی بھی فوجی مقصد کے لیے شہریوں کا غیرضروری قتل ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ مسئلہ فلسطین پر اسرائیل کے 50 سالہ قبضے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، فلسطینیوں کے قتل و غارت گری اور خاص طور پر حالیہ برسوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کیا جا رہا ہے۔

’میں سمجھتا ہوں کہ جب آپ لوگوں کو ایک کونے میں دھکیلتے ہیں، جب آپ انہیں دباتے ہیں اور آپ ان کے بچوں کو مارتے ہیں، تو وہ ردعمل ظاہر کریں گے۔ اور یہی ہوا ہے۔‘

مشرق وسطی میں ناصرف ایران کے اپنی پراکسی قوتوں بلکہ خطے میں کئی امریکی طیارہ بردار جہازوں کی موجودگی کی وجہ سے بھی کشیدگی میں اضافے کے خدشات جاری تنازع کے گرد منڈلا رہے ہیں ۔

منیر اکرم نے کہا، ’ہمیں ایک بین الاقوامی بحران کے خطرے کا سامنا ہے۔ فلسطینی بچوں اور خواتین کے مارے جانے کی انسانی وجوہات کے علاوہ ایک سٹریٹجک وجہ بھی ہے اور وہ یہی خطرہ ہے کہ یہ تنازعہ پھیل سکتا ہے۔ اس کے ناصرف خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرناک مضمرات ہو سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’مجھے یقین ہے کہ غزہ میں ہونے والے جرائم کی شدت ایسی چیز ہے جسے بین الاقوامی ضمیر کو جھنجھوڑنا چاہیے۔ ’اگر بین الاقوامی ضمیر کو متحرک کیا جائے تو ہم ان لوگوں کے موقف میں تبدیلی دیکھ سکتے ہیں جو اس جنگ کو روکنے سے انکاری ہیں۔‘

اگر یہ ناکام ہو جاتا ہے تو منیر اکرم نے بتایا کہ عرب ممالک اور اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو ’اگر اسرائیل جنگ بند نہیں کرتا تو جواب دینے کے طریقے تلاش کرنا ہوں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ دو ریاستی حل ہی اس تنازع کا جواب ہے اور انہیں جلد از جلد اس راستے پر واپس آنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

20 − three =