دسمبر 26, 2024

ایرانی حملے میں اسرائیلی فضائی اڈے نواتیم کے کئی مقامات کو نقصان پہنچا: رپورٹ

سیاسیات- برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایران اور اسرائیل دونوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے 13 اپریل کو ہونے والے حملے میں کامیابی حاصل کی۔ ایک جانب ایران یہ کہہ رہا ہے کہ اس نے اسرائیل پر کامیابی سے حملہ کیا جبکہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ حملہ ناکام بنا دیا۔

ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسرائیل پر حملے کو ’محدود‘ رکھا اور ان کا ہدف‘ اسرائیلی آبادی اور اقتصادی مراکز‘ نہیں بلکہ فوجی اڈے تھے۔

ہم ایران کے اسرائیل پر کیے گئے حملے میں ہونے والے نقصان کو سمجھنے کے لیے سیٹلائٹ تصاویر، ویڈیوز، تصاویر اور فوجی عہدیداروں کے بیانات کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کے ذریعے اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں اب تک اس حملے سے متعلق کیا معلوم ہے اور کیا نہیں۔

اسرائیل پر ایرانی فضائی حملہ

13 اپریل کی علی الصبح ایران نے دمشق میں اپنے سفارتخانے پر حملے کے جواب میں اسرائیل پر تقریباً 300 میزائل اور خودکش ڈرونز داغے تھے جسے ایران نے ’وعدہ صادق‘ کا نام دیا۔

اسرائیلی فوج نے اس حملے کو ناکام بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی حدود میں پہنچنے سے قبل ہی بیشتر میزائلوں اور ڈرونز کو ’ایرو‘ نامی فضائی دفاعی نظام اور خطے میں موجود اتحادیوں کی مدد سے ناکام بنا دیا گیا۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر 170 ڈرونز، 120 بیلسٹک میزائلوں اور 30 کروز میزائلوں سے حملہ کیا۔

ایران نے حملے کو تین حصوں پر مرتب کیا تھا: پہلے خودکش ڈرونز، پھر کروز میزائل اور آخر میں بیلسٹک میزائل۔

ایران کے پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس فورس، جس کی سربراہی امیر علی حاجی زادہ کر رہے تھے، اسرائیل پر حملے کی ذمہ دار تھی تاہم پاسداران انقلاب نے ابھی تک باضابطہ طور پر یہ اعلان نہیں کیا کہ اس نے اسرائیل کے خلاف کتنے اور کس قسم کے ڈرونز اور میزائل استعمال کیے۔

ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن پر شائع ہونے والے پاسداران انقلاب کے دو بیانات میں کہا گیا کہ انھوں نے درجنوں ڈرونز اور میزائلوں کے ذریعے اسرائیل کے ’مخصوص اہداف کو نشانہ بنایا

اگلے روز ایرانی ٹی وی آئی ار آئی بی نیوز نے حملے کے بارے میں ایک رپورٹ میں ایران کے 136 ڈرونز، پاوہ کروز میزائل اور عماد-3 بیلسٹک میزائلوں کی تصاویر دکھائیں۔

دیگر ایرانی میڈیا نے بھی خیبرشکن اور قادر نامی ایرانی بیلسٹک میزائلوں کا ذکر کیا۔

ایران کا کہنا ہے کہ اس نے اسرائیل میں دو اہداف پر حملہ کیا: نواتیم ایئر بیس اور گولان کی پہاڑیوں میں قائم ہرمون سگنل بیس پر۔

بی بی سی کی فیکٹ چیکنگ ٹیم نے حملے میں استعمال ہونے والے کچھ میزائلوں کی تحقیقات کی ہیں۔

سیٹلائٹ کی مدد سے حاصل کردہ ان تصاویر کو اکثر کسی ایسے حملے میں ہونے والی تباہی، اہداف پر آنے والی ممکنہ تبدیلیوں اور حملے کی علامات سے موازنہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان تصاویر کے جائزہ سے حاصل ہونے والی معلومات کو حملے سے متعلق سوالات کے جوابات دینے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

یہ تصاویر اسرائیل پر ایرانی حملے کی شدت اور دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر اسرائیلی حملے کے درمیان تعلق کی نشاندہی کر سکتی ہیں۔

نواتیم ایئر بیس پر حملہ اسرائیل کے اہم فضائی اڈوں میں سے ایک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ اسرائیل کے اہم دیمونا جوہری مرکز سے صرف 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس حملے کو ایران کی جانب سے ایک دھمکی آمیز پیغام بھیجنا سمجھا جا سکتا ہے۔

دوحہ انسٹیٹیوٹ میں سکیورٹی اور ملٹری سٹڈیز کے پروفیسر عمر آشور سمیت چند دیگر عسکری امور کے تجزیہ کاروں نے ایران کے حملے کو عسکری اور انٹیلیجنس دونوں لحاظ سے اہم قرار دیا۔

ایران کا اسرائیل پر حملہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایرانی میزائل ٹیکنالوجی کی صلاحیت جس نے ہمیشہ مغرب کو تشویش میں رکھا اور مغرب نے اسے (ایران کو) جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے روکنے کے لیے مرتب دیے گئے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کی قرار داد 2231 کے تحت میزائل ٹیکنالوجی سے روکے رکھنے کی کوشش کی۔

اس حملے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایران نے اسرائیل کے شمال اور مغرب کو نشانہ بنایا اور اس حملے سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ اس کو اسرائیل کے کسی بھی حصہ تک ہدف جو نشانہ بنانے کی رسائی حاصل ہے۔

عمر آشور کے مطابق ایران کے حملے میں استعمال ہونے والے ڈرونز کی تعداد اور حملے کے لیے طے کیے گئے فاصلے کی ’مثال نہیں ملتی۔‘

نواتیم ایئر بیس: اہم ہدف

ایران کے حملے میں اسرائیلی فوج کے زیر استعمال نواتیم بیس زیر بحث رہی ہے اور سیٹلائٹ کی مدد سے حاصل کردہ تصاویر میں اس میں تبدیلیاں واضح ہیں۔ اسرائیل نے بھی اس اڈے کو ’معمولی‘ نقصان پہنچنے کی تصدیق کی۔

نواتیم ایئر بیس وسطی اسرائیل، جنوبی مغربی کنارے اور بحیرۂ مردار کے مغرب میں واقع ہے۔

12 سے 14 اپریل کے درمیان سیٹلائٹ کی مدد سے لی گئی تصاویر کے مطابق نواتیم فضائی اڈے پر کم از کم چار مقامات پر کچھ تبدیلیوں کو دیکھا جا سکتا ہے البتہ صرف ان تصاویر سے میزائل حملے کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔

اسرائیلی فوج نے 14 اپریل کو 19 سیکنڈ کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں حملے سے متاثر ہونے والے تین مختلف مقامات کو دکھایا گیا تھا۔ ویڈیو میں اسرائیلی افواج کو رن وے کی مرمت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

اس ویڈیو میں اس فضائی اڈے کے رن وے کے جس مقام کی مرمت کی جا رہی ہے وہ سیٹلائٹ تصاویر میں ظاہر ہوبے والے ایک مقام سے مماثلت رکھتا ہے جس میں ایک بڑی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔

بیس میں پانچ بڑے رن وے ہیں جو بیس کے شمال اور جنوب میں ہیں۔

جیسا کہ 12 اپریل کو سیٹلایٹ سے حاصل کردہ تصاویر میں دکھایا گیا، نواتیم بیس کے جنوبی رن وے پر کوئی تبدیلی نہیں لیکن ایرانی حملے کے بعد اسی رن وے پر ایک بڑا داغ نظر آتا ہے۔

یہ دھبہ 14 اپریل کو بھی نظر آیا تھا، یہ تبدیلی اسرائیلی حکام کی جانب سے رن وے کو پہنچنے والے نقصان کے مطابق ہو سکتی ہے۔

رن وے تقریباً 23 میٹر چوڑا ہے اور نشان کی چوڑائی بھی پورے رن وے کی چوڑائی کے برابر ہے اور یہ مقام اسرائیلی لڑاکا طیاروں کے ہینگر سے صرف 190 میٹر دور ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی خبر دی ہے کہ اسرائیل پر ایرانی حملے میں نوایتم ایئر بیس کے رن وے کے ایک حصے کو نقصان پہنچا۔

اسرائیل نے اس نقصان کو ’معمولی‘ قرار دیا اور اسرائیلی فوج کی 19 سیکنڈ کی ویڈیو میں یہ دکھایا گیا کہ لڑاکا طیارے فضائی اڈے سے اڑان بھر رہے ہیں تاکہ یہ پیغام دیا جائے کہ اس حملے سے اڈے کے امور میں خلل نہیں پڑا، لیکن ویڈیو میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ طیارے پانچ فضائی اڈوں میں سے کس سے اڑان بھر رہے تھے۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگری نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی جنگی طیارے خطے میں خطرات کے خلاف فوجی کارروائی کر رہے ہیں۔

تاہم ایران کا کہنا ہے کہ نوایتم اسرائیلی ایف 35 سٹیلتھ لڑاکا طیاروں کا اڈہ ہے جنھوں نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر حملے میں حصہ لیا تھا۔

اسرائیل نے نوایتم بیس سے ایرانی قونصل خانے پر حملے کی نہ تو تصدیق کی اور نہ ہی اس کی تردید کی۔

دوحہ انسٹیٹیوٹ کے عسکری امور کے تجزیہ کار عمر آشور کا کہنا ہے کہ ’ایران کے پاس اس حملے کی ابتدا کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات تھیں۔‘

ایک اور نکتہ جسے اسرائیلی حکام نے ایران کی جانب سے اس کے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے سب سے بڑے نقصان کے طور پر بیان کیا ہے وہ ایک نئی تعمیر شدہ عمارت کی دیوار کے ساتھ ایک گڑھا ہے۔

اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ ایک نئے تعمیر شدہ ڈھانچے کو ایرانی حملے میں نقصان پہنچا
یہ عمارت بیس کے شمالی رن وے کے قریب ہے۔ 13 اپریل کے حملے کے بعد، سائٹ کے کم از کم ایک حصے میں تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں.

پ13 اور 14 اپریل کی فضائی تصاویر میں بھی ایسی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں جو اسرائیلی فوج کی جاری کردہ ویڈیو سے مطابقت رکھتی ہیں، اسرائیلی ترجمان نے تصدیق کی کہ اس حملے میں صرف ’بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا۔‘

اس فضائی اڈے کی سیٹلائٹ سے حاصل کردہ پہلے اور بعد کی تصاویر سے پتا چلتا ہے کہ یہ ڈھانچہ حال ہی میں دو دوسرے ڈھانچوں کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا۔

بی بی سی فارسی کی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ اگرچہ اسرائیل نے ایرانی میزائیلوں کو روکنے یا مار گرانے کے دعوے میں خود کو فاتح قرار دیا لیکن متعدد معاملات میں اسرائیلی فضائی دفاعی نظام ایرانی میزائلوں کو روکنے سے ناکام رہا ہے۔

بی بی سی نے نواتیم بیس پر کم از کم دو دیگر ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں ایرانی حملے کے فوراً بعد اہم تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں جو ایک گڑھے سے ملتی جلتی ہیں۔

یہ دونوں تبدیلیاں تواتیم فضائی اڈے کے شمالی حصوں میں ہوئیں، ایک شمالی پٹی کے درمیان اور دوسری نواتیم بیس کے شمال مشرقی حصے میں، جو اڈے کے باہر ایک انکلوژر ہے۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کی گئی ایک گڑھے کی تصویر میں کہا گیا ہے کہ یہ ایرانی حملے کی وجہ سے ہوا تھا
زمینی شواہد میں، صرف تین متاثرہ مقامات کی شناخت کی جا سکتی ہے لیکن چوتھے مقام سے جو شمال مشرق اور بیس کے باہر نظر آتا ہے، کوئی تصویر جاری نہیں کی گئی اور یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تبدیلی کیوں آئی۔

عمر آشور نے نواتیم بیس پر حملے کے بارے میں ایک مضمون میں لکھا کہ ’ڈرونز اور دیگر فضائی ہتھیاروں کے جھنڈ نے اسرائیل کے کثیر الجہتی، مربوط فضائی دفاع کو ناکام بنا دیا اور متعدد بیلسٹک میزائلوں کو اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی اجازت دی۔‘

اقوام متحدہ کے سابق ہتھیاروں کے انسپکٹر سکاٹ ریٹر کے مطابق ’نواتیم فضائی اڈے کو پانچ سے سات میزائلوں نے نشانہ بنایا۔

امریکی نیٹ ورک اے بی سی نے کچھ اسرائیلی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ نواتیم بیس کو پانچ میزائلوں نے نشانہ بنایا۔

ہرمن انٹیلیجنس اڈہ اور ریمن کی ایئر بیس

اسرائیل میں ہرمن کی انٹیلیجنس بیس شام اور عراق کی سرحد کے قریب گولان کی پہاڑیوں پر واقع ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل کا سب سے اہم ملٹری انٹیلیجنس یونٹ 8200 جو الیکٹرانک انٹیلیجنس کا ذمہ دار ہے، اس اڈے پر تعینات ہے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ سب سے بڑا ملٹری انٹیلیجنس یونٹ ہے۔

پاسداران انقلاب کا کہنا ہے کہ ہرمن بیس قونصل خانے پر حملے کے لیے انٹیلیجنس معلومات جمع کرنے میں ملوث تھا، یہی وجہ ہے کہ اس ایرانی حملے میں ہدف بنایا گیا تھا۔

اس فوجی اڈے کے قریب سیٹلائٹ تصاویر کے ایک سروے میں گڑھے سے ملتا جلتا ایک نشان دکھائی دیتا ہے لیکن جائے وقوعہ کے اعداد و شمار اور زمینی معلومات کے بغیر یہ بتانا ناممکن ہے کہ یہ نشان کس چیز کا ہے۔

ایران کے سرکاری میڈیا نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ریمون ایئر بیس ان اہداف میں شامل تھی جنھیں کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔

لیکن ایران کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف محمد باقری نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں حملے کے بعد صرف ہرمن انٹیلیجنس بیس اور نعیم ایئر بیس کو اہداف کے طور پر نامزد کیا۔

حملے سے پہلے اور بعد کی سیٹلائٹ تصاویر کا موازنہ کرنے سے بھی کوئی قابل ذکر تبدیلی نظر نہیں آتی ہے ، سوائے ایک چھوٹی سی تصویر کے جو اکیلے تبدیلی کی نشاندہی یا تصدیق نہیں کرتی ہے۔

اس دعوے کی حمایت میں کوئی زمینی ثبوت جاری نہیں کیے گئے اور اسرائیل نے ریمن کے اڈے پر حملے کی تردید کی ہے۔

اگر ہم یہ مان لیں کہ آج کی دنیا میں میڈیا کا پروپیگنڈا جنگ کا حصہ ہے تو حالیہ ایران اسرائیل کشیدگی کے دوران فریقوں نے اپنی فوجی انٹیلیجنس برتری یا اپنی فتح ظاہر کرنے کے لیے مختلف دعوے کیے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے ایران کے 99 فیصد میزائلوں کو تباہ کر دیا اور نواتیم بیس کو صرف معمولی نقصان پہنچا لیکن اڈے پر کئی تبدیلیوں کے اثرات واضح ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی میزائل اسرائیل کے کثیر الجہتی فضائی دفاعی نظام سے گزر چکے ہیں۔

اسرائیلی اخبار ماریو نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ ایران کے 84 فیصد میزائلوں کو تباہ کر دیا گیا اور اگرچہ یہ تعداد اسرائیل کے دفاعی نظام کی اعلیٰ کارکردگی کی علامت ہے لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ’ایرانی خطرے کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا گیا۔‘

خود امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اردن نے کہا ہے کہ انھوں نے ایران کے میزائلوں اور ڈرونز کو روکنے اور مار گرانے میں اسرائیل کی مدد کی۔

ایران کی پاسداران انقلاب آپریشن ’وعدہ صادق‘ کو ایک کامیابی سمجھتی ہے اور پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف محمد سلامی کے مطابق اس نے اسرائیل کی کثیر الجہتی دفاعی حصار اور اس کے اتحادیوں کو کمزور کر دیا۔

ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے پہلے رد عمل میں کہا کہ اسرائیل پر کتنے میزائل گرے اور کتنے اسرائیل نے روکے یہ ایک ذیلی معاملہ ہے اہم بات یہ ہے کہ ایران کی مضبوط مسلح افواج نے اپنے آپ کو ثابت کیا۔‘

جو بھی اس تنازعے میں جیتا لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ مشرق وسطیٰ کی سرد جنگ کا خاتمہ ہے یا یہ ایک بھرپور جنگ کا آغاز ہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

four × 2 =