سیاسیات- ناکامی کے بعض دعووں کے باوجود اسرائیل کے خلاف ایران کا حملہ بڑی حد تک کامیاب رہا ہے کہ جس کے دوران تہران نے اپنی پیشرفتہ عسکری صلاحیتوں کا کھل کر مظاہرہ بھی کیا ہے” یہ الفاظ معروف برطانوی تھنک ٹینک چیٹہام ہاؤس کے ایک تجزیاتی مقالے کا خلاصہ ہیں۔
تل ابیب کے خلاف تہران کے تنبیہی حملے (وعدۂ صادق آپریشن) اور اس کے نتائج کے بارے معروف برطانوی تھنک ٹینک چیٹہام ہاؤس (Chatham House-Royal Institute of International Affairs) کی جانب سے نشر کردہ مقالے کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ ایران کی جانب سے اسرائیل کے خلاف ڈرون و میزائل حملوں کہ جو کئی گھنٹوں تک جاری رہے، نے ان دو دشمن ممالک کے درمیان جاری رویے اور باہمی تعامل کے پرانے تمام اصول یکسر بدل ڈالے ہیں نیز اس حملے نے مشرق وسطی کو ایک وسیع تر تنازعے کے قریب بھی پہنچا دیا ہے، ایک ایسا تنازعہ کہ جس پر اگر قابو نہ پایا گیا تو پورے خطے پر اس کے غیر مستحکم کر دینے والے اثرات مرتب ہوں گے۔
اس رپورٹ کے مصنفین صنم وکیل (Sanam Vakil) اور بلال وائے صاب (Bilal Y. Saab) نے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف ایرانی ڈرون و میزائل حملوں سے متعلق “ناکامی” کے تمام دعووں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسرائیل پر ایران کا حملہ وہ ناکامی نہ تھی کہ جس کا بہت سے فریق کھل کر دعوی کرتے نظر آتے ہیں!
اس رپورٹ کے مصنفین کے مطابق طوفان الاقصی آپریشن نے اسرائیل کو مجبور کیا کہ وہ ایران اور اس سے متعلقہ بلاک (مزاحمتی محاذ) کے خلاف ایک نیا طریقہ اپنائے کیونکہ اس (طوفان الاقصی آپریشن) نے اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے اسرائیل کی جانب سے اختیار کردہ تمام سابقہ حکمت عملی کی مکمل شکست کو طشت از بام کر کے رکھ دیا تھا۔
حالیہ مہینوں کے دوران خطے میں ایرانی افواج کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کے متعدد دہشتگردانہ حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے چیٹہام ہاؤس کے تجزیہ کاروں نے لکھا کہ ایران کا مسلسل پیغام یہی رہا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر علاقائی جنگ سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے اپنا نیا انداز اپنانے کے حساب کتاب میں بھی شاید یہی (ایرانی موقف) ایک موثر محرک ثابت ہوا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیٹرنس کی بحالی کے مقصد سے اسرائیل پر براہ راست اور ٹارگٹڈ حملے، تہران کے حساب کتاب میں تبدیلی اور ایران کی جانب سے خطرات مول لینے کی سطح میں اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں جبکہ یہ ایک ایسا مسئلہ کہ جس کی (ایرانی انقلابی گارڈز) سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر جنرل حسین سلامی ان الفاظ میں از قبل تفسیر کر چکے ہیں: “اسرائیل کے ساتھ ایک نئی مساوات!”
اس رپورٹ کے مصنفین کا خیال ہے کہ تہران کے نقطۂ نظر سے، اس کے حالیہ ردعمل کا مقصد اسرائیل کے ساتھ جاری تنازعے میں نئی ریڈ لائنز کھینچنا اور یہ واضح کرنا ہے کہ اگر اسرائیل کی ایران اور اس کے شراکتداروں کے خلاف مہم مزید جاری رہتی ہے تو ایران (یہ سب کچھ) کر سکتا ہے اور اسے صورتحال پر قابو بھی پانا چاہیئے!
چیٹہام ہاؤس کے تجزیہ کاروں نے مزید لکھا کہ یہ ایک آسان کام ہے کہ جلدی کے ساتھ یہ نتیجہ دے دیا جائے کہ یہ حملہ ایک “بڑی ناکامی” تھا، خاص طور پر اسرائیل کے کثیر السطحی میزائل دفاعی اسٹرکچر کے ذریعے ایرانی ڈرون طیاروں و میزائلوں کے ٹریک کر لئے جانے کو دیکھتے ہوئے جبکہ یہ ایک ایسا نتیجہ ہے جس کا بہت سے لوگوں نے اظہار بھی کیا ہے تاہم اگر ایران کا ارادہ اسرائیل کو شدید نقصان پہنچانے پر مبنی ہوتا تو وہ “فوجی کارروائیوں کے بنیادی اصول” کی خلاف ورزی کبھی نہ کرتا کہ جو “اچانک حملے” پر مبنی ہوتا ہے لیکن ایران نے ایسا نہیں کیا اور (مذکورہ حملے پر مبنی) اپنے گہرے عزم کا اظہار واشنگٹن سمیت کئی ایک عرب و یورپی ممالک کے دارالحکومتوں کے سامنے اور عوامی سطح پر کیا اور یقین دلایا کہ یہ حملہ تقریباً چھوٹا ہی ہو گا۔۔ لہذا اگر ایران اسرائیل کو شدید “درد” پہنچانا چاہتا تو وہ نہ صرف تیز رفتار اور اسمارٹ بیلسٹک میزائلوں کے مزید بھاری ورژن کا استعمال کرتا کہ جس سے تیاری اور جواب دینے کے لئے اسرائیل کو بہت ہی کم وقت ملتا بلکہ وہ اپنی علاقائی پراکسیوں، خاص طور پر طاقتور حزب اللہ کی قابل قدر جنگی طاقت کو بھی اپنی کارروائیوں میں ضم کر سکتا تھا جس سے وہ اپنے حالیہ حملے کو اسرائیل کے لئے ایک حقیقی اور کثیر المحاذ خوفناک حملے میں بدل سکتا تھا!
برطانوی تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل پر ڈرون و میزائل حملوں سے متعلق ایران کا اسٹریٹیجک ہدف “ایران کی ڈیٹرنس کو مضبوط بنانا اور اسرائیل کے ساتھ جاری رویے و تعامل کے اصولوں کو دوبارہ سے متعین کرنا” تھا اور اس نقطہ نظر سے “ایران کا حملہ انتہائی حد تک کامیاب رہا ہے”۔
انہوں نے لکھا کہ ایران نے اس حملے میں اپنی پیشرفتہ صلاحیتوں کا، اس حد سے بڑھ کر، مظاہرہ کیا ہے کہ جس کا اس کے مخالفین اعتراف کرنا “چاہتے” تھے!
برطانوی تھنک ٹینک نے اپنے تجزیئے کے آخر میں لکھا کہ “ایران نے اسرائیل اور امریکہ کو اس حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک ارب ڈالر سے بھی زیادہ کی رقوم خرچ کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور یہ بھی کوئی “معمولی نتیجہ” نہیں کیونکہ ایران نے خود اس رقم کا تقریباً “دسواں حصہ” بھی خرچ نہیں کیا تھا درحالیکہ موجودہ حالات اور واشنگٹن کی مالی و سیاسی مجبوریوں کے تناظر میں؛ اسرائیل کے لئے امریکی فوجی امداد میں اضافے کی بھی کوئی ضمانت موجود نہیں!!